موجودہ صورتحال اور بلوچ طلبہ کی ذمہ داریاں
!بلوچ نوجوانوں
بلوچستان کے موجودہ حالات میں بلوچ طلبہ کس حد تک مظالم کا سامنا کر رہے ہیں، اسے خود بلوچ طلباء کے بغیر کوئی اور بہتر طور پر محسوس نہیں کرسکتا ہے۔ پاکستان کی کالونیل تشدد نے بلوچ طلباء کو ذہنی صدمہ جیسے صورتحال میں رکھا ہے۔ اپنے گھر سے لیکر تعلیمی اداروں تک ایسا کوئی مقام نہیں جہاں بلوچ طلباء اپنے آپ کو محفوظ سمجھیں۔ بلوچ نوجوان ہر جگہ پاکستان کی کالونیل تشدد کا سامنا کر رہے ہیں۔ آج حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں کہ اگر کسی بلوچ نوجوان کا عمر 16 سال ہے تو وہ اپنے گھر میں رہ نہیں سکتا۔ اس کے لیے لازم بن چکا ہے کہ وہ اپنی حفاظت کے لیے گھر سے باہر رہیں اور اپنی سلامتی کے لیے کسی بڑے شہر کی طرف رجوع کریں۔لیکن اب ہم دیکھ رہے ہیں کہ اسلام آباد جیسے بڑے شہروں میں بھی بلوچ طلباء کو ان کے “بلوچ شناخت” کی بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنایا جارہا ہے، یونیورسٹی کے اندر انہیں ہراسمنٹ کا سامنا کرنا پڑتا ہے جبکہ اب روزانہ کی بنیاد پر انہیں جبری گمشدگیوں کا بھی سامنا ہے۔ پاکستانی ریاست بلوچ طلباء کو سیاسی نظریات یا سیاسی تنظیموں سے وابستگی کی بنیاد پر نہیں بلکہ صرف” بلوچ شناخت” کے بنیاد پر تشدد کا نشانہ بنا رہا ہے اور وہ اسی شناخت کے بنیاد پر ہی وہ ہمیں نشانہ بناتے رہے گا۔
!باشعور بلوچ طلباء
آج آپ جس تشدد کا سامنا کر رہے ہیں اس کا براہ راست تعلق کالونیلزم سے ہے۔ پاکستان سے پہلے جتنی بھی کالونیل طاقتیں گزرے ہیں ان کا اپنے کالونیوں کے ساتھ ہمیشہ اسی طرح کا رویہ رہا ہے کیونکہ کالونیلزم کا بنیاد ہی جبر و تشدد سے رکھا جاتا ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو سیاسی وابستگیوں کی بنیاد پر نشانہ بنانا اپنی جگہ ایک الگ بحث ہے مگر حالیہ دنوں جتنے بھی نوجوان لاپتہ کیے گئے ہیں یا جبری گمشدگی کا نشانہ بنائے جا رہے ہیں ان میں اکثر ایسے طلباء شامل ہیں جو پاکستان کی سول سروس یعنی بیوروکریسی کے امتحانات کی تیاریوں میں مصروف تھے جبکہ باز ایسے طلباء شامل ہیں جنہوں نے ایم فل کیا ہوا ہے اور وہ پاکستان کے یونیورسٹیوں میں لیکچرارشپ کی تیاری کر رہے ہیں، اس سے صاف ظاہر ہوتا ہے کہ پاکستان کیلئے یہ اہم نہیں کہ کونسے طلباء سیاسی ہیں یا کونسے غیر سیاسی ہیں بلکہ وہ بلوچ نوجوانوں کو ان کی قومی شناخت کے بنیاد پر نشانہ بنا رہی ہے۔ کالونیل طاقتوں کیلئے سب سے زیادہ یہ اہم ہے کہ وہ کس طرح اپنے کالونیوں کے اندر خوف و ہراس کو قائم رکھیں۔ ہم دیکھتے ہیں کہ پاکستان کا رویہ ہمیشہ بلوچستان کے ساتھ اسی طرح رہا ہے۔ انہی حالیہ 10 دنوں کے اندر کراچی، تربت، پنجاب اور کوئٹہ سمیت دیگر علاقوں سے درجنوں کی تعداد میں بلوچ طلبہ کو نشانہ بنایا گیا ہے۔ بہت سے طلبہ شدید تشدد کے بعد چھوڑ دیے گئے ہیں جبکہ متعدد اب بھی لاپتہ ہیں۔ یہی اس عمل کا حصہ ہے جس کے تحت پاکستان بلوچستان کے اندر اپنے خوف و ہراس کو قائم رکھنا چاہتا ہے۔ اسی خوف کو زندہ رکھنے کیلئے پاکستانی ریاست اندھا دھند بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگیوں کا نشانہ بنا رہا ہے۔
!پیارے بلوچ طلباء
ان حالات کے تناظر میں دو ایسی چیزیں ہیں جن پر بلوچ طلباء کے درمیان بحث کی ضرورت ہے۔ ایک کولونیل تشدد ، دوسرا متحدہ جدوجہد۔ ہم دیکھ رہے ہیں کہ پاکستان بلوچوں کی جبری گمشدگیوں پر مسلسل ایک مخصوص بیانیہ کی تشہیر کررہا ہے کہ “جن بلوچوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا جارہا ہے وہ لازماً پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی سرگرمی میں شامل رہے ہیں وگرنہ کسی بے گناہ کو جبری گمشدگی کا نشانہ نہیں بنایا جاتا”۔ یہ ایک کالونیل بیانیہ ہے جو پاکستانی ریاست اپنی “تشدد” کی دفاع میں استعمال کرتا ہے۔ دنیا میں ہر جگہ کالونیل طاقتوں نے اپنے تشدد کے دفاع میں ایسے بیانیے استعمال کیے ہیں۔ مگر المیہ یہ ہے کہ جب ہم خود اس کالونیل بیانیے کا شکار ہوتے ہیں۔ یعنی ہم سمجھتے ہیں کہ جس بھی بلوچ طلباء کو جبری طور پر لاپتہ کیا جاتا ہے تو وہ لازماً پاکستان کے خلاف کسی نہ کسی سرگرمی میں شامل رہا ہے۔ (ہیاں اس بات کو سمجھنا ضروری ہے کہ جبری گمشدگی کسی بھی صورت جُرم ہے) مثال کے طور پر کئی مرتبہ ہمیں یہ دیکھنے کو ملتا ہے کہ جب کسی طالب علم کو لاپتہ کیا جاتا ہے تو پاکستانی ریاست کے کالونیل بیانے پر بھروستہ کرتے ہوئے اس کے نزدیک دیگر طلباء اس کے حق میں آواز نہیں اٹھاتے کہ شاید جبری گمشدگی کے شکار نوجوان نے پاکستانی ریاست کے خلاف کوئی کام کیا ہے۔ مگر دوسرے دن وہ طالب علم خود جبری گمشدگی کا شکار ہوتا ہے، تب انہیں اس بات کا احساس ہوتا ہے کہ کسی غلام قوم کے فرزند کیلئے شرط یہ نہیں کہ وہ قبضہ گیر کے خلاف کسی سرگرمی میں حصہ لیں یا نہیں بلکہ غلام قوم سے تعلق رکھنا ہی اصل جرم ہے۔ جس کے پاداش میں غلام قوم کو تشدد کا نشانہ بنایا جاتا ہے۔ سب سے پہلے ہمیں اس کالونیل بیانیے سے نکلنا ہوگا اور یہ سمجھنے کی ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا کالونیل تشدد کا حصہ ہے۔ کولونیل تشدد اس لیے ہو رہا ہے کیونکہ ہم بلوچ بطور قوم پاکستان کے غلام ہیں اور یہ کالونیل تشدد اس وقت تک قائم رہے گا جب تک بلوچستان پر پاکستان کا جبری قبضہ قائم ہے۔ جب تک بلوچستان پاکستانی قبضہ میں رہے گا اس وقت تک بلوچ نوجوان جبری گمشدگی اور اس تشدد کا سامنا کرتے رہیں گے چاہیئں وہ سیاسی سرگرمیوں میں حصہ لیں یا نہیں لیں۔
!قابل احترام بلوچ طالب علموں
اب یہ سوال پیدا ہوتا ہے کہ اس صورتحال میں بلوچ طلباء کو کیا کرنا چاہیے؟ ہم سمجھتے ہیں کہ سب سے پہلے بلوچ نوجوانوں کو اس کالونیل بیانیے سے نکلتے ہوئے کالونیلزم اور کالونیل تشدد کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ جب ہم کالونیلزم اور کالونیل تشدد کو سمجھنے میں کامیاب ہونگے ۔ تب ہم ہر لاپتہ نوجوان کے درد کو اپنا درد سمجھیں گے اور اپنی باری کا انتظار کرنے سے پہلے ساتھی لاپتہ طالب علم کیلئے آواز اٹھائیں گے۔ اس کے علاوہ موجودہ صورتحال میں دوسری اہم ضرورت پاکستانی مظالم کے خلاف اکھٹا اور متحدہ جدوجہد ہے۔ مثال کے طور پر اس وقت ہماری صورتحال یہ ہے کہ اپنے دیگر ساتھی طالب علموں کی جبری گمشدگی کے خلاف صرف اہلخانہ، دوست اور اسی تعلیمی ادارے میں موجود طالب علم احتجاج اور مظاہرے کر رہے ہیں ۔ لیکن اب تک ہم یہ سمجھنے سے قاصر ہیں کہ کالونیل تشدد صرف کسی مخصوص خاندان، علاقہ، پارٹی یا تنظیم تک محدود نہیں بلکہ یہ تشدد قومی بنیاد پر بلوچ عوام کے خلاف ہو رہا ہے۔ ہر بلوچ کالونیل تشدد کا سامنا کر رہا ہے۔ اس صورتحال میں کالونیل طاقت کے خلاف متحدہ جدوجہد کی ضرورت ہے ۔ جب کوئی طالب علم خضدار سے لاپتہ کیا جاتا ہے تو تربت کے نوجوان اپنی باری کا انتظار کیے بغیر آواز اٹھائیں۔ متحدہ جدوجہد طاقت کی بنیادی شرط ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو اپنی اس طاقت کو سمجھنے کی ضرورت ہے۔ اس متحدہ جدوجہد کی مثال حالیہ پنجگور واقعے سے لیں جہاں ایف سے کے اہلکار ایک طالب علم کو بس سے اتار کر کیمپ منتقل کرتے ہیں تو بس میں موجود بلوچ بغیر کسی تفریق کیے اس جبری گمشدگی کے خلاف روڈ بلاک کرکے ایف سی کیمپ کے سامنے دھرنا دیتے ہیں جس کے بعد قابض فوج مجبور ہوکر لاپتہ طالب علم کو بازیاب کر دیتا ہے۔ اس کی دوسری مثال پنجاب یونیورسٹی ہے جہاں طالب علم ساتھی طلباء کی جبری گمشدگی کے خلاف متحد ہوکر یونیورسٹی کے سامنے دھرنا دیتے ہیں جس کے بعد ریاست مجبور ہوکر طالب علم کو بازیاب کر دیتا ہے۔
!بلوچ طالب علموں
یہ آپ کی متحدہ جدوجہد کی طاقت ہے، آپ کو اس متحدہ طاقت کو سمجھتے ہوئے جدوجہد کرنا چاہیے۔ اپنی گمشدگی کا انتظار نہیں کرنا چاہیے بلکہ جہاں سے بھی کوئی بلوچ جبری طور پر گمشدہ کر دیا جائے تو جھالان ، ساروان، کوہ سلیمان اور مکران دیکھے بغیر بلوچ بن کر اس درد اور گم کو اپنا سمجھنا چاہئے ۔ اپنے گمشدہ لوگوں کیلئے متحد ہوکر جدوجہد کرنا چاہیے۔ ہمیں اس مظالم کے خلاف سڑکوں پر نکلنا ہوگا، احتجاج کرنا ہوگا۔ سوشل میڈیا میں آواز اٹھانا ہوگا اور پاکستان کے مظالم کے خلاف ہر فورم پر لکھنا چاہیے اور اس جبر و تشدد کے خلاف جس طرح بھی ہو سکیں کھڑا رہنے کی ضرورت ہے۔ ہماری متحدہ جدوجہد اور طاقت بلوچ سرزمین پر پاکستانی کالونیل تشدد کو ختم کرکے پاکستانی قبضہ کا خاتمہ کر سکتی ہے اور بلوچ نوجوانوں کو ایک خوشحال زندگی اور آزاد سرزمین عطاء کر سکتی ہے۔
بلوچ طلبہ کی جدوجہد زندہ باد
بلوچستان زندہ باد
نشر و اشاعت: سگار پبلی کیشنز
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد