ھوشاپ سے خواتین کی جبری گمشدگی اور احتجاجی دھرنے پر فائرنگ ریاستی بربریت کا شاخسانہ ہے۔
بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد نے اپنے جاری کردہ بیان میں ھوشاپ سے ایک نورجان نامی خواتین کو جبری گمشدگی کا شکار بنایا اور بعدازاں خواتین پربے بنیاد الزامات لگائے گئے جبکہ خواتین کی جبری گمشدگی کے خلاف احتجاجی دھرنے کے جم عفیر پر فورسز کی جانب سے فائرنگ کی گئی۔ ریاستی فورسز کی جانب سے اس طرح کے عمل بلوچستان میں جاری بربریت کا شاخسانہ ہے جس میں کسی قسم کی جنسی، انسانی اور قومی اقدار بالائے طاق رکھا جارہا ہے۔
انھوں نے کہا کہ ریاست تسلسل کے ساتھ بلوچستان میں انسانی حقوق کی پامالی کرتے ہوئے سنگین جرائم کا ارتکاب کر رہی ہے۔کبھی نہتے بلوچ عوام پر گولیاں برسائی جا رہی ہیں تو کبھی انھیں جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہوئے زندانوں کے نظر کیا جا رہا ہے۔ریاست بلوچستان میں اپنی قبضہ گیریت کو طول بخشنے اور استحصال کو برقرار رکھنے کےلیے تشدد کو بروئے کار لا رہا ہے۔ جبکہ گزشتہ چند عرصے تشدد کی اس لہر میں مسلسل تیزی دیکھی جا رہی ہے جو کہ نہایت ہی تشویشناک ہے۔
انھوں نے مزید کہا گزشتہ چند ہفتوں میں ریاستی فورسز نے بلوچستان سمیت پاکستان کے دیگر شہروں سے درجنوں بلوچ نوجوانوں کو جبری گمشدگی کا شکار بناتے ہوئے انھیں ٹارچر سیلوں کے نظر کر دیا۔جبری گمشدگیوں کا یہ سلسلہ بلوچ نسل کشی کا ہی تسلسل ہے جس پر ریاست دہائیوں سے عمل پیرا ہے۔ نسل کشی کا یہ سلسلہ کبھی جبری گمشدگیوں کی شکل میں بروئے کار لایا جاتا ہے تو کبھی عام عوام کو اندھی گولیوں کا شکار بنایا جاتا ہے اور کہیں پانی جیسی سہولیات میسر نہ کرتے ہوئے مختلف امراض کی شکل میں ہزاروں انسانوں کو لقمہ اجل بنایا جاتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی ان سنگین خلاف ورزیوں میں جہاں تیزی دیکھی جا رہی ہے وہیں انسانی حقوق کے عالمی اداروں کی خاموشی بھی اداروں کے کردار پر سوالیہ نشان ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ ضرورت اس امر کی ہے کہ بلوچ عوام ریاستی نسل کشی کے ان پالیسیوں کو پرکھے اور ریاستی پالیسیوں کے خلاف آہنی دیوار بن کر کھڑی ہو جائے۔ انسانی حقوق کے عالمی ادارے بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کی خلاف ورزیوں پر پاکستان کا احتساب کرے تاکہ بلوچستان کی عوام مزید اس ریاستی کا شکار نہ ہو۔