ترقی یافتہ ممالک کو مقبوضہ بلوچستان میں ناقابل تسخیر خواتین کی آواز بننا چاہیے۔
بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائیزیشن آزاد کی مرکزی ترجمان نے خواتین کی عالمی دن کے مناسبت سے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ دنیا کی اس تیزی سے بدلتی شکل میں خواتین نے انتہائی اہم کردار ادا کیا ہے اور وہ آج ہر شعبے میں اپنی صلاحیتوں کا لوہا منوا رہے ہیں جو یہ ثابت کرتی ہے کہ بلوچ خواتین ہر لحاظ سے باصلاحیت اور تخیلقی سوچ رکھتے ہیں۔ لیکن بدقسمتی سے ترقی یافتہ اور سامراجی ریاستیں ترقی کے اس عمل میں مظلوم اقوام کے خواتین اور ان پر جاری ظلم و ستم کو مکمل طور پر نظرانداز کر چکی ہیں جس کی وجہ سے اکیسویں صدی میں بھی بلوچ جیسی غلام قوم کے خواتین ریاستی جبر کے زیر تسلط زندگی گزارنے پر مجبور ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ بلوچ خواتین نے اپنی جدوجہد اور صلاحیتوں سے آج بلوچ معاشرے میں اعلی مقام حاصل کیا ہے جبکہ بلوچ مزاحمتی تحریک میں ان کا بڑھ چڑھ کر حصہ لینا بلوچ جدوجہد کی کامیابی کا واضح ثمر ہے۔ قومی تحریک میں حصہ لیکر بلوچ عورتوں نے اپنی جدوجہد اور صلاحیتوں سے واضح کر دیا ہے کہ بلوچ سماج میں قابض کے مذہبی انتہاء پسندانہ سوچ کی کوئی گنجائش نہیں لیکن بدقسمتی سے عالمی قوتوں کی جانب سے جہدِ مسلسل کی علامت بلوچ خواتین سمیت اپنے پیاروں کی بازیابی کیلئے آواز اٹھانے والی خواتین کو مسلسل نظرانداز کیاجا رہا ہے اور ریاست کی خواتین کے خلاف جبر پر مکمل طور پر خاموشی ہے۔ بلوچستان میں ریاست نے بلوچ خواتین کے خلاف ایک اعلان جنگ کر رکھا ہے جس میں خواتین کو اجتماعی سزا کا نشانہ بنانا، انہیں اغواء کرنا، ان پر بےبنیاد الزامات لگانا اور انہیں مسلسل ہراساں کرنا شامل ہے۔ بلوچستان کے ہر دوسرے علاقے سے ریاستی فورسز نے بلوچ خواتین کو نشانہ بنایا ہے اور یہ سلسلہ تاہنوز جاری ہے بلکہ دو ہفتے پہلے ہی ماحل بلوچ کو کوئٹہ سے جبری طور پر لاپتہ کیا گیا اور اب انہیں بےبنیاد الزامات کے بنیاد پر پابند سلاسل کیا گیا ہے۔ اگر عالمی اداروں نے بلوچستان میں مداخلت کرتے ہوئے بلوچ خواتین کے خلاف ریاستی تشدد کو روکنے میں کردار ادا نہ کیا تو خدشہ ہے کہ ریاستی فورسز خواتین کو مزید درندگی کا نشانہ بنائیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں بلوچ خواتین سے مخاطب ہوتے ہوئے کہا کہ مقبوضہ بلوچستان میں مذہبی انتہاء پسند پاکستانی ریاست اس وقت بلوچ خواتین کے خلاف سنگین بربریت پر اتر آئی ہے لیکن یہ تاریخی حقیقت ہے کہ دنیا میں کسی کو بھی جدوجہد کے بغیر آزادی نہیں ملی ہے۔ بلوچ خواتین بلوچ قومی تحریک کو منظم و متحرک کرنے میں کردار ادا کریں کیونکہ ایک آزاد اور خودمختار بلوچستان ہی بلوچ خواتین کو وہ تمام آزادیاں میسر کر سکتی ہے جن کے وہ متقاضی ہیں۔ جبکہ خواتین کی مکمل شمولیت کے بغیر بلوچ جدوجہد نامکمل ہے اس لیے بلوچ خواتین کو اس جدوجہد کی اہمیت کا ادراک کرتے ہوئے قومی تحریک میں بھرپور کردار معروضی قومی ضروریات کا تقاضہ ہے۔