شہید لمہ ء وطن بانک کریمہ بلوچ مزاحمت کا استعارہ ہیں انہوں نے بلوچستان میں بلوچ خواتین کو صرف سیاسی پلیٹ فارمز پر ایکٹیو کرنے میں کردار ادا نہیں کیا بلکہ انہوں نے بلوچ خواتین سمیت بلوچستان بھر میں نوجوانوں کے اندر بلوچ قومی آزادی کا پیغام متحرک انداز میں پہنچایا۔ بانک کریمہ کی جدوجہد بلوچستان میں ایک نمایاں حیثیت رکھتی ہے انہوں نے ایسے وقت میں تنظیم کے جھنڈے کو مضبوطی سے تھامے رکھا جب ریاست بلوچستان بھر میں سیاسی جہد کاروں کو نشانہ بنا رہی تھی۔لمہ ء وطن بانک کریمہ کی متحرک کردار سے خائف ریاست نے انہیں خوفزدہ کرنے کیلئے ان کے ایک چچا کو اغوا کرنے کے بعد شہید کیا اور انہیں بلوچستان کیلئے جدوجہد سے دور رہنے کو کہا لیکن تمام مصائب، ساتھیوں کی مسخ شدہ لاشیں اٹھانے اور سخت انقلابی حالات سے گزرنے کے باوجود انہوں نے جدوجہد میں اپنی مضبوط کردار ادا کی۔
بانک کریمہ کی انہی جدوجہد و کردار کو دیکھ کر تنظیم نے لمہء وطن بانک کریمہ کی شہادت کے دن کو بلوچ وومن ڈے کے طور پر منانے کا اعلان کیا تھا۔ بانک کریمہ بلوچستان میں بلوچ خواتین کو سیاسی اور سماجی زندگی میں متحرک کرنے میں اہم کردار ادا کر چکے ہیں۔ کریمہ کے بغیر بلوچستان میں خواتین کی سیاسی جدوجہد نامکمل ہے۔ کریمہ کی سیاسی بالیدگی اور کمٹمنٹ کی بدولت بلوچستان بھر میں خواتین سیاسی محاذ پر ایکٹیو ہوئے اور انہوں نے بلوچستان بھر میں اپنا کردار ادا کرنا شروع کیا اور آج ایک منظم انداز میں بلوچوں کی سیاسی جدوجہد میں کردار ادا کر رہے ہیں۔ کریمہ کو ریاست نے جسمانی طور پر بلوچستان سے جدا کرکے سیاسی خلا پیدا کرنے کی کوشش کی لیکن کریمہ نے جس نظریے اور سوچ کی بنیاد پر اپنی پوری زندگی سیاست کی اس نظریے کو کوئی موت حاصل نہیں اس لیے آج بلوچستان کے ہر گھر میں ایک کریمہ پیدا ہو گئی ہے۔ جس نظریے کی پرچار کی خاطر بانک کریمہ بلوچستان کے گھر گھر میں جاتی تھی آج وہ نظریہ ہر بلوچ نوجوان کے ذہن میں رچ بس چکا ہے۔ تنظیم نے کریمہ کے کردار کو دیکھتے ہوئے انہیں لمہ ء وطن کا خطاب دیا تھا کیونکہ انہوں نے بلوچ سماج کی تشکیل میں بطور لمہ (ماں) کام کیا اور اس جدوجہد کا ثمر آج بلوچستان کے گھر گھر میں دیکھا جا سکتا ہے۔ انہیں تنظیم کا پہلا خاتون چیئرپرسن کا بھی اعزاز حاصل ہے۔کریمہ کی پوری زندگی بلوچ قومی تحریک کو منظم کرنے اورانہیں بلوچستان کے گھر گھر میں پہنچانے میں گزری اور اسی کی پاداش میں ریاست نے انہیں کینیڈا میں شہید کیا جہاں انہوں نے سیاسی پناہ لی ہوئی تھی۔
آج کریمہ بلوچستان میں موجود نہیں لیکن ان کی جدوجہد کا ثمر اور جرات و استقامت آج بلوچستان بھر میں محسوس کر جا رہی ہے۔ کریمہ نے جو بیج بویا تھا آج وہ تناور درخت کی صورت اختیار کر چکی ہے۔ بانک کریمہ صرف ایک عہد نہیں بلکہ تمام عہد میں بطور ایک رہنما اور رہشون یاد رکھی جائیں گی۔ کریمہ کی شہادت کو آج تین سال ہو چکے ہیں لیکن کریمہ ہر دن ہر لمحہ بلوچستان میں محسوس کی جاتی ہے ان کا کردار آج فکر و نظریےمیں تبدیل ہو چکی ہے اور بلوچ سماج کے اندر تبدیلیوں کا باعث بن رہی ہے۔ کریمہ کو ان کی شہادت کی تیسری برسی کے موقعے پر خراج عقیدت پیش کرتے ہوئے ان کے کردار اور نظریات کو منظم انداز میں پھیلانے کی عہد کرتے ہیں۔ بانک کریمہ بلوچ سماج میں بطور رول ماڈل یاد رکھی جائیں گی۔

Share to