بلوچستان میں ملٹی ڈائریکشنل جاریت کی تیاریاں کی جا رہی ہیں، بلوچ قوم ریاستی جاریت کا مقابلہ کرنے کیلئے ذہنی طور پر تیار رہیں۔
بی ایس او آزاد
بلوچستان میں گزشتہ چند دنوں سے ریاست ایک مختلف نوعیت کی جاریت کی تیاریاں کر رہی ہیں جس میں صرف فوجی جاریت کا سہارہ نہیں لیا جائے گا بلکہ یہ جاریت ملٹی ڈائریکشنل ہوگا جس پر قابض فوج نے نام نہاد ایپکس کمیٹی کی میٹنگ سے پہلے تیاریاں شروع کر لی ہیں۔ بارکھان سے صحافی کی جبری گمشدگی، کوئٹہ پریس کلب میں سیمینار و دیگر پروگرام کیلئے دسٹرکٹ کمشنر سے این او سی کی اجازت کا فیصلہ جبکہ گوادر میں صحافیوں کو دھمکانہ، بلوچستان کے تعلیمی اداروں کیلئے فوج کی تعیناتی کا فیصلہ جس سے بلوچ طلباء کو ذہنی طور پر خوف کا شکار کرنا، خضدار سمیت دیگر علاقوں سے 5 افراد کی لاشیں پھینک دینا اور دیگر تیاریاں یہ صرف جاریت کے شروعات ہیں امید کی جا سکتی ہے کہ نام نہاد ایکپس کمیٹی کی میٹنگ کے بعد اس جاریت پر واضح طور پر عمل درآمد شروع کی جائے گی۔ نام نہاد اور فوجی کٹھ پتلی سرفرازبگٹی بلوچستان میں کئی دفعہ سیاسی کارکنان اور بلوچستان میں انٹرنیٹ کی محدود سروس پر خوفزدہ نظر آتے رہے ہیں یعنی اُن کا ارادہ بلوچستان بھر میں مکمل طور پر انٹرنیٹ کو بند کرنا ہے جس سے وہ بلوچستان میں اپنی جاریت اور بربریت کو دنیا کے آنکھوں سے سامنے سے چھپائیں۔
ریاست آنے والے دنوں میں بلوچستان میں ایک ملٹی ڈائریکشنل جاریت شروع کرنے جا رہی ہے جس کے خلاف بلوچ قوم کو ذہنی طور پر تیار رہنا چاہیے۔ ریاست جبری گمشدگیوں اور فیک انکاؤنٹر کا سلسلہ بڑھانے کیلئے پیش قدمی کر سکتا ہے تاکہ بلوچستان میں ایک خوف کا ماحول پیدا کیا جا سکیں جبکہ اس کے ساتھ ساتھ سیاسی کارکنان کو نشانہ بنانا، ٹارگٹ کلنگ کو منظم شکل دینا، جبکہ ڈیتھ اسکواڈ جنہوں نے پہلے ہی بلوچوں کیلئے زندگی اجیرن بنا دی ہے انہیں مزید چھوٹ دی جا سکتی ہے تاکہ وہ بلوچستان میں قتل و غیرت کا بازار گرم رکھ سکیں۔ بلوچ قوم اور بلخصوص ریاستی جبر کے شکار افراد اور ان کے خاندان سے اپیل کرتے ہیں کہ اس ریاستی بربریت پر کسی بھی طرح کی خاموشی یا خوف ان کیلئے زندگی کو مزید مشکل بنا سکتی ہے اس لیے ریاستی بربریت کے خلاف اپنی بھرپور مزاحمت کا مظاہرہ کریں اور کسی بھی طرح ریاستی بلیک میلنگ اور خوفزدہ کرنے کی حکمت عملیوں کا شکار نہ ہوں بلکہ قابض کی ان حکمت عملیوں اور جبر کے خلاف صف بندی کرتے ہوئے مضبوط مزاحمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے۔ چین سمیت دنیا کے کئی طاقتوں کی آنکھیں اس وقت بلوچستان پر قبضہ جمانے کیلئے ٹکھی ہیں اور وہ پاکستان کو اس بربریت میں مکمل طور پر سپورٹ کر رہے ہیں، چین کی سی پیک اور ان سے منسلک پروجیکٹ و فوجی اور مالی حمایت یہ واضح کرتا ہے کہ چین اس جنگ میں پاکستان کا بھرپور ساتھ دے رہی ہے اس لیے بلوچ قوم کو اس سامراجی طاقت کے خلاف بھی بھروپر مزاحمت کا مظاہرہ کرنا چاہیے اور ان کے نام نہاد پروجیکٹس کا مکمل طور پر بائیکاٹ کرناچاہیے۔ قابض پاکستانی فوج کا بلوچستان میں کٹھ پتلی وزیراعلی کوئی عوام کا نمائندہ نہیں بلکہ ڈیتھ اسکواڈ کا سرغنہ اور بلوچ قتل و غیرت میں یقین رکھنے والا شخص ہے جس کے ہاتھ بلوچ خون سے رنگے ہیں اس لیے ان کی نام نہاد گڈ گورننس جس کا مقصد دن بدن واضح ہوتا جا رہا ہے اس کو سمجھ کر اس کو رد کریں اور جوق درجوق قومی آزادی کی جدوجہد کا حصہ بنیں۔ ہمیں اس بات کا اچھی طرح علم ہونا چاہیے کہ ریاست یہ تمام اقدامات بلوچ قوم کو خوفزدہ کرنے اور انہیں ان کے حقیقی جدوجہد یعنی قومی آزادی کے فکر و فلسفے سے گمراہ کرنے کیلئے کر رہی ہے۔ بلوچ شہدا اور اسیران کی قربانیوں کا سمر قومی آزادی ہے جو جلد بلوچ قوم ہر صورت حاصل کرے گی۔
آخر میں عالمی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ بلوچستان میں ریاستی جبر و بربریت کا نوٹس لیتے ہوئے قابض پاکستان کو بلوچستان میں مزید جاریت کرنے کی اجازت نہ دیں بلکہ بلوچ قومی تحریک کا ساتھ دیں جو بلوچ عوام کے امنگوں کی ترجمانی کر رہی ہے جبکہ بلوچ عوام سے ریاستی جبر و بربریت کے خلاف بھرپور مزاحمت کی اپیل کرتے ہیں، کسی بھی ریاستی جبر اور وحشت کے خلاف بھرپور سیاسی مزاحمت کا راستہ اختیار کریں تاکہ ریاست کیلئے بلوچستان میں زمین مزید تنگ ہو جائیں۔