شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے دن ہی کراچی سے درجنوں بلوچ نوجوانوں کی گمشدگی تنظیم کے منہ پر زور دار طمانچہ ہے۔
بی ایس او آزاد
اسلام آباد میں پاکستان کی سربراہی میں 16 اکتوبر کو شنگھائی تعاون تنظیم کے اجلاس کے موقعے پر کراچی اور بلوچستان کے دیگر علاقوں سے درجنوں افراد کی جبری گمشدگی اور انہیں ماورائے عدالت گرفتار کرکے ریاست نے تنظیم کے سربراہوں کے منہ پر زور دار طمانچہ دے مارا ہے جو انسانی حقوق، ریاستی دہشتگردی،حق خودارادیت،آزادی، علاقائی سلامیت و انسانی ترقی کی بات کرتے ہیں۔ شنگھائی تعاون تنظیم کے ممبران کی جانب سے پاکستان آمد اور بلوچستان میں جاری انسانی حقوق کے المناک صورتحال پر خاموشی اختیار کرنا تنظیم کے غیر معونیت کو واضح کر دیتا ہے۔ پاکستان کی جانب سے اس وقت بلوچستان میں آگ لگائی گئی ہے، ہزاروں لوگ لاپتہ ہیں اور درجنوں آئے دن اٹھائے جاتے ہیں، سینکڑوں افراد کو فیک انکاؤنٹر میں نشانہ بنایا گیا ہے جبکہ ترقی کے نام پر بلوچستان میں کئی آبادی غائب کر دیے گئے ہیں۔ لاکھوں لوگوں کو نقل مقانی پر مجبور کیا گیا ہے، انسانی حقوق کے آوازوں کو دبانے کیلئے انہیں فورتھ شیڈول اور سفری پابندیوں کا سامنا ہے جبکہ ایسے ماحول میں 15 ممالک کے وفود پاکستان آئے جہاں کرفیو کا سماں تھا اور میٹنگ کرکے چلے گئے اور اس سنگین غیر انسانی صورتحال پر کسی نے بھی لب کشائی نہیں کی جو شرمناک اور تنظیم کے غیر معنویت کا واضح ثبوت ہے۔ ہونا یہ چاہیے تھا کہ بلوچستان اور قابض ریاست کے دیگر مظلوم اقوام پر تشدد اور غیر انسانی سلوک پر ریاست پاکستان آنے سے بائیکاٹ کرتے یا ان مظالم پر پاکستان کو جوابدہ کرتے تاکہ اس کی کوئی حیثیت رہ جاتی لیکن ان تمام مظالم پر انہوں نے خاموش رہ کر ریاستی جبر، ظلم اور تشدد کو سپورٹ کرتے ہوئے اپنے روایات کی سنگین پامالی کی ہے۔
بلوچستان میں عالیہ دنوں درجنوں افراد کو ماورائے عدالت گرفتار کرکے جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے۔ گزشتہ دنوں کراچی سے 9 نوجوان، سعید اللہ، محمد جاوید، شعیب علی، اشفاق خالد داد، زبیر، حنیف، شہزاد خالد، بیبگر عمیر، کمبر علی اور نال سے ایک نوجوان اور لسبیہ یونیورسٹی کے طالب علم علی حیدر بلوچ کو ان کے گھر سے چادر و چاردیواری کی پامالی کرتے ہوئے گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا۔ جبکہ دوسری جانب گزشتہ کئی دنوں سے ڈیرہ بگٹی، مستونگ اور دیگر علاقوں سے فوجی جاریت کا سلسلہ جاری ہے۔انسانی حقوق کے اداروں کی خاموشی اور ریاست کو ان کے جرائم پر سزا نہ دینے کی وجہ سے ریاست بلوچستان میں بے لگام لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔ سی پیک کے خلاف بلوچ مزاحمت اور اس کی ناکامی دیکھ کر ریاست بوکھلاہٹ کا شکار ہو چکی ہے، بلوچ قومی مزاحمت کی وجہ سے قابض اور اس کے شراکت دار بلوچستان میں اپنی جابرانہ اور لوٹ و کھوسٹ پر مبنی پروجیکٹ کو افتتاع کرنے میں بھی ناکامی سے دوچار ہیں جس کی وجہ سے اب ریاست بلوچستان میں بے گناہ اور معصوم لوگوں کو نشانہ بنا رہی ہے۔
عالمی اداروں کو چاہیے کہ وہ بلوچستان میں بلوچ قومی مزاحمت اور آزادی کے جدوجہد کا اعتراف کرتے ہوئے آزاد بلوچستان کی حمایت کریں اور قابض پاکستانی ریاست کو بلوچستان میں جاری غیر انسانی سلوک پر انصاف کے کٹہرے میں لائیں۔ سی پیک کی ناکامی دیکھ کر دیگر سرمایہ داروں کو بلوچستان میں قابض ریاست پاکستان کے ایما پر بلوچستان میں سرمایہ کاری کرنے پر گریز کرنا چاہیے جبکہ شنگھائی تعاون تنظیم جیسے اداروں کو پاکستان جیسے جابر اور قابض ریاست کے ساتھ شراکت داری کے بجائے اپنے ممبر ریاست کی جانب سے ایک مقبوضہ علاقے میں جاری قتل و غارت گری پر اسے جوابدہ کرنا چاہیے۔ انسانی حقوق کے ادارے بلوچستان میں جاری قتل و غیرت گری پر آواز بلند کرتے ہوئے پاکستان کو دباؤ دیں کہ وہ بلوچستان میں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کو بند کریں۔