ستائیس مارچ یومِ قبضہ
27 March 2018
قابل احترام بلوچ عوام۔۔۔
بلوچستان کی جغرافیہ، اسٹریٹجک اہمیت کا حامل ہونے کے سبب ہمیشہ بیرونی حملہ آوروں کے زد میں رہا ہے۔بلوچوں نے ہر ادوار میں بیرونی طاقتوں کے خلاف سرزمین کا دفاع کیا اور اپنی ریاست کی آزاد حیثیت کو برقرار رکھنے کیلئے مزاحمت کرنے کو ترجیح دی ۔جس وقت انگریز قبضہ کرنے کی نیت سے افغانستان ، بلوچستان اور ہندوستان کا رخ کررہے تھے اس وقت اس خطے میں بلوچستان ایک آزاد ریاست تھا ۔جب انگریز بلوچستان پر حملہ آور ہوئے تو بلوچستان کے حکمران خان محراب خان نے انگریز کے خلاف مزاحمت کرکے جام شہادت نوش کیا اور بلوچوں نے قبضہ گیروں کے خلاف مزاحمت کے روایات کو برقرار رکھتے ہوئے انگریز سے بلوچستان کی آزادی تک جدوجہد کو جاری رکھا ۔بلاآخر 11اگست1947ءکو بلوچستان کی آزادی کو تسلیم کیا گیا ۔ جب انگریز نے اپنے توسیع پسندانہ پالیسی کے تحت ہند وستان کو تقسیم کیا اور پاکستان جیسی تھیوکریٹک ریاست کو وجود میں لا یا تاکہ برطانیہ پوری ایشیا ءمیں اپنی اثرورسوخ کوبرقرار رکھ سکیں تو اسی تناظر میں پاکستان نے آزادوخود مختیار ریاست بلوچستا ن پر قابض ہو نے کیلئے مختلف سازشیں تیار کیے ۔بلوچستان پر قبضے سے قبل بلو چستان کے پا رلیمنٹ دارلعوام اور دارلامرامیں موجود اراکین پا کستان کی اس سازش سے بخوبی واقف تھے اس لئے انہو ں نے سیاسی بنیا د پر بحث و مباحثے کا آغا ز کیا کہ پا کستانی حکمران اسلام کے نام پر بلو چستان پر قبضہ کرنے کی کو شش کررہے ہیں چونکہ ہم بلوچ اپنی سرزمین کی آزادی کو ہرگز قر بان کرنے کیلئے تیار نہیں ہے۔ بلوچ ریاست کی دونوں ایوانوں کے اکثریت رائے نے کہا کہ” جہاں تک بات اسلام کی بنیاد پر الحاق کی ہے تو دنیا کے تمام مسلم ممالک کو پاکستان کے ساتھ الحاق کرنی چاہیے تھے لہذا پاکستان کو ہماری زمینی اہمیت او ر ساحل وسائل سے دلچسپی ہے وہ اسلام کے نام کو بطور ہتھیار استعمال کررہاہے ۔بلوچ پارلیمنٹ کی اکثریت نے پاکستان سے الحاق کے تجویز کو کثرت رائے سے مسترد کیا تو پاکستان نے فوج کشی کرکے27مارچ 1948ءکو بلوچستان پر بزور شمشیر قبضہ کیا ۔
باشعور بلوچ نوجوانوں۔۔۔
بلوچ عوام نے شروع دن سے اس ناجائز قبضے کو تسلیم کرنے سے انکا ر کیا اور پاکستانی قبضے کے خلاف براہ راست مزاحمت کا آغاز کیا جو آج تک تسلسل کے ساتھ جاری ہے۔ بلوچ قومی آزادی کی جد وجہد کو ختم کر نے کےلئے پا کستان شروع دن سے طاقت آزمائی کا مظاہرہ کررہی ہے لیکن اس کے باوجود پاکستان کو بلوچستان میں ناکامیاں ہی نصیب ہورہی ہے۔جدوجہد کے اس طویل دورانیہ میںبلوچ قومی تحریک نشیب و فراز کے مختلف مراحل سے گزرتا ہوا آج اس نہج پر پہنچ چکی ہے کہ بلوچ مسئلے کو بین القوامی سطح پر تسلیم کیا جاچکا ہے۔ پاکستان اپنی عسکری طاقت کے اکثرتی حصے کو استعمال کرنے کے باوجود بلوچ تحریک کے تسلسل کو روکنے میں ناکامی کے بعد بلوچ نسل کشی کی پالیسی میں روز بہ روز تیزی لارہی ہے۔ پاکستان نے نہ صرف بلوچ نسل کشی میں تیزی لارہی ہے بلکہ بلوچ سرزمین کے قدرتی وسائل کی بے دردی سے لوٹ و کھسوٹ اور ترقیاتی منصوبوں کے آڑ میں ہماری آبادی کو اقلیت میں بدلنے کی کوشش بھی کررہی ہے۔ بحیثیت بلوچ سرزمین کے وارث ہمیں قابض کی ان تمام منصوبوں کو مد نظر رکھ کر قومی بقاءکیلئے ایک وسیع اور جامع پالیسی اپنانا چاہیے تاکہ ہم دشمن کے اس منفی چال کو خاک میں ملا دیں جس سے ہمیں قومی غلامی سے نجات حاصل ہو اور ایک آزاد و خودمختیار سماج تشکیل دینے میں کامیاب ہوجائے۔
بلوچ عوام
پاکستان اپنے قبضے کو وسعت دینے کیلئے آبا د کا ری کے سلسلے کو ایک مرتبہ پھر تیزی کے ساتھ بلوچستان بھر میں پھیلا رہا ہے۔ بلوچستان کے مختلف علاقے جہاں بلوچ قوم کو اقلیت میں تبدیل کیا جا چکا ہے جس کی واضح مثال کو ئٹہ ، حب چوکی اور کراچی ہیں۔آج آبادکاری کے اس سلسلے کو بلوچستان کے ساحلی علاقے خاص کر گوادر میں وسعت دینے کی کوشش کی جارئی ہے۔ پاکستان کی اس طر ح کے خطرناک عزائم کو ناکا م بنانے کیلئے بلوچستان میں سرگرم بلوچ آزادی پسند پارٹیوں کو اپنی صفحوں میں بحث کرنی ہو گی کہ کیسے اور کس طرح قابض کے اس تسلسل کو روک سکتے ہیں ساتھ ہی اپنی سر زمین کی آزاد حیثیت کو بحال کرنے کیلئے مشترکہ راہ ہموار کرنی ہوگی۔ اب وقت اور حالات بلوچ قوم سے تقاضہ کرتی ہے کہ اپنی قومی بقا ءکی خاطر اپنی تمام تر توانائیاں قومی آزادی کی جدوجہد میں صرف کریں جس کی بدولت ہماری آنے والی نسلیں خوشحال رہیں گے اور بلوچ قوم 27مارچ کو یوم سیاہ بھر پور طریقے سے مناکر پاکستان سے اپنی نفرت کا اظہار کریں جس دن پاکستان نے بزور طاقت ہم سے ہماری آزادی سلب کی تھی ۔
جدوجہد آخری فتح تک
نشر و اشاعت : بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد