“مجھے ایک دن مار دیا جائے گا، لیکن میرے بعد کوئی اور آئے گا”
دی بلوچستان پوسٹ رپورٹ
بہزاد دیدگ بلوچ
آج سے نو سال پہلے ایک متحرک اور ذہین نوجوان نے نیوز لائن میگزین کو تین بلوچ رہنماوں غلام محمد بلوچ، شیر محمد بلوچ اور لالا منیر بلوچ کے شہادت کے دن انٹرویو دیتے ہوئے کہا تھا کہ ” میں جانتا ہوں بلوچستان میں حقیقی سیاست کرنے کا انجام کیا ہوتا ہے، ایک دن مجھے مار دیا جائے گا، لیکن میری موت مجھے دور نہیں کرے گی، میرے بعد کوئی اور آئے گا اور اس طرح آزادی کیلئے ہماری یہ جدوجہد جاری رہے گی۔” اس پچیس سالہ نوجوان نے اپنا تعارف زاہد کرد بلوچ کے نام سے کی تھی اور وہ اس وقت بلوچستان کے ایک بڑے طلباء تنظیم بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے سیکریٹری جنرل تھے اور کراچی یونیورسٹی میں سیاسیات کے شعبے میں تعلیم حاصل کررہے تھے۔
وہی زاہد بلوچ آگے جاکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے چیئرمین بنتے ہیں۔ اگر آپ بلوچستان کے بارے میں معلومات کیلئے پاکستانی میڈیا یا سرکاری بیانیئے تک اکتفاء کرتے ہیں تو پھر شاید آپ یہ سمجھیں کہ بی ایس او آزاد پنجاب کے طلباء تنظیموں کی طرح یونیورسٹیوں میں غنڈہ گردی کرنے والا کوئی چھوٹا موٹا تنظیم ہے یا پھر اگر آپ آئی ایس پی آر کے پریس ریلیز زیادہ پڑھتے ہیں تو پھر شاید یہ سمجھیں کہ یہ کوئی دہشتگرد تنظیم ہے۔ ان دونوں بیانیوں کا حقیقت سے کوئی تعلق نہیں۔
بی ایس او بلوچ سماج اور سیاست میں جز لاینفک کی حیثیت رکھتی ہے، اسکے اثر انگیزی کا اندازہ آپ اس بات سے لگا سکتے ہیں، دوسرے عمومی طلباء تنظیموں کے برعکس اس طلبہ تنظیم کو کسی پارٹی نے جنم نہیں دیا بلکہ اس طلبہ تنظیم کے کوکھ سے کئی پارٹیوں حتیٰ کے مسلح تنظیموں تک کی جنم ہوئی ہے۔ اس لیئے بی ایس او کو بلوچ سیاست میں ” مادر تنظیم ” کہا جاتا ہے۔ لہٰذا اس تنظیم کے سربراہ ہونے کے معنی بلوچ سیاست اور بلوچ سماج میں بہت معنی اور اثر رکھتی ہے۔
زاہد بلوچ اسی تنظیم کے جمہوری طور پر منتخب چیئرمین تھے، وہ جانتے تھے کہ اتنی بڑی ذمہ داری کی قیمت بھی اتنی ہی بھاری چکانی پڑے گی، جس کا اشارہ وہ بہت پہلے دے چکے تھے۔ آج سے چار سال پہلے 18 مارچ 2014 کو زاہد بلوچ تنظیمی دورے پر بلوچستان کے شہر کوئٹہ جاتے ہیں اور وہیں سے خفیہ اداروں اور پاکستانی نیم فوجی دستے فرنٹیئر کور کے ہاتھوں عینی شاھدین کے سامنے اغواء ہوتے ہیں اور آج چار سال گذرنے کے باوجود وہ تاحال لاپتہ ہیں۔
اس واقعے کے عینی شاھد کے طور پر اس وقت کے بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے وائس چیئرپرسن اور موجودہ چیئرپرسن کریمہ بلوچ بیان دے چکے ہیں کہ زاہد بلوچ کو انکی آنکھوں کے سامنے اٹھایا گیا، جس کے بعد وہ کوئٹہ کے سریاب تھانے ایف آئی آر درج کرنے گئی لیکن پولیس نے ایف آئی آر درج کرنے سے صاف انکار کردیا تھا۔
” گذشتہ نو سالوں سے خاص طور پر بی ایس او آزاد کے سابق سینئر وائس چیئرمین ذاکر مجید کے اغواء کے بعد سے پاکستان خفیہ ادارے اس بات پر کمربستہ ہیں کہ ہر حال میں بی ایس او آزاد کو صفحہ ہستی سے مٹا دیا جائے، ہمارے مرکزی رہنما تو درکنار ہمارے عام کارکنوں تک کو نہیں چھوڑا جارہا اور انہیں مار دیا جاتا ہے، چاکر بلوچ، مجید بلوچ اور بالاچ بلوچ کی عمر تو بمشکل 12 سے 14 کے درمیان تھی، انہیں صرف بی ایس او آزاد کے کارکن ہونے کی پاداش میں اذیت ناک تشدد کرکے شہید کیا گیا، لیکن ان حالات کے باوجود زاہد بلوچ شہر شہر اور گاوں گاوں جاکر کارکنوں اور لوگوں سے ملتے تھے اور تنظیمی کام کرتے تھے۔” زاہد بلوچ کے قریبی دوست اور بی ایس او آزاد کے ایک سابق مرکزی رہنما نے دی بلوچستان پوسٹ سے زاہد بلوچ کے متعلق گفتگو کرتے ہوئے کہا۔
جب اس سے پوچھا گیا کہ آخر وجہ کیا تھی کہ زاہد بلوچ اتنا خطرہ مول کر تنظیمی دوروں پر نکلتا؟ تو اس نے کہا ” زاہد یہ باور کرانا چاہتا تھا کہ چاہے حالات جتنے بھی ناگفتہ ہوں، پھر بھی آزادی کیلئے پر امن طریقے سے جدوجہد کی جاسکتی ہے، وہ باور کرانا چاہتا تھا کہ آزادی مانگنے کیلئے ضروری نہیں ہے کہ صرف بندوق اٹھائی جائے بلکہ پر امن رہ کر قلم و زبان اور سیاسی طریقوں سے بھی یہ لڑائی لڑی جاسکتی ہے، وہ بلوچستان کے سیاسی میدانوں کو ویران دیکھنا نہیں چاہتے تھے۔ انکو بندوق نا اٹھانے کی سزا ملی ہے، اگر وہ بندوق اٹھاتے تو اس وقت وہ زندہ ہوتے یا پھر شہیدوں میں گنے جاتے لیکن اب وہ نا زندہ ہیں نا ہی مردہ”
زاہد بلوچ کے اغواء کے بعد متعدد انسانی حقوق کے اداروں نے اسکے اغواء کا نوٹس لیا اور پاکستان پر دباو ڈالا کے وہ زاہد بلوچ کی فوری رہائی یقینی بنائیں۔ اس حوالے سے ایشین ہیومین رائٹس کمیشن نے 25 اپریل 2014 کو ایک پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے پاکستانی خفیہ ادارے آئی ایس آئی پر زاہد بلوچ کے اغواء کا الزام لگایا اور رہائی کا مطالبہ کیا۔ اسی طرح ایشین لیگل ریسورس سینٹر نے 16 جون 2014 کو زاہد بلوچ کے جبری گمشدگی کا نوٹس لیکر ایک پریس ریلیز جاری کی جس میں زاہد بلوچ کے اغواء کا ذمہ دار خفیہ اداروں کو ٹہرایا گیا اور زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا گیا۔
ایمنسٹی انٹرنیشنل نے 19 مئی 2014 کو بیک وقت دو زبانوں انگریزی اور فرانسیسی میں نوٹس جاری کرتے ہوئے، پاکستانی حکام سے زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا تھا، جس میں فرنٹیئر کور پر زاہد بلوچ کو اغواء کرنے کا الزام لگایا گیا تھا۔
29 اپریل 2014 کو ہیومن رائٹس کمیشن آف پاکستان کے چیئرپرسن زہرہ یوسف نے بھی پریس ریلیز جاری کرتے ہوئے زاہد بلوچ کے رہائی کا مطالبہ کیا تھا اور خفیہ اداروں کو مورود الزام ٹہرایا تھا۔ اس کے علاوہ بہت سے علاقائی اور عالمی انسانی حقوق کے اداروں نے زاہد بلوچ کے رہائی کیلئے کوششیں کرتے رہے لیکن کچھ بارآور ثابت نہیں ہوا۔
گذشتہ چار سالوں سے مسلسل زاہد بلوچ کے رہائی کیلئے پرامن احتجاج بلوچستان و کراچی سمیت دنیا کے کونے کونے میں وقتاً فوقتاً جاری ہے۔ ان احتجاوں میں سب سے قابلِ ذکر بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی کمیٹی کے رکن لطیف جوھر بلوچ کی 46 روزہ بھوک ہڑتال ہے۔ انہوں نے تادم مرگ بھوک ہڑتال کا اعلان کرکے احتجاج کا آغاز کردیا لیکن 46 روز گذرنے کے بعد جب انکی حالت ناگفتہ بہ ہوگئی اور وہ قریب المرگ ہورہے تھے تو بہت سے انسانی حقوق کے اداروں نے ملکر یقین دہانی کرائی کے وہ اس بات کو ممکن بنائیں گے کہ زاہد بلوچ جلد از جلد چھوٹ جائیں، جس کے بعد انہوں نے احتجاج ختم کردیا تھا۔
اس حوالے سے دی بلوچستان پوسٹ نے لطیف جوھر بلوچ سے گفتگو کی اور دریافت کیا کہ بھوک ہڑتال کے بعد ان اداروں کی یقین دہانیوں کے بابت ابتک کیا پیشرفت ہوئی ہے تو انہوں نے کہا ” اُن یقین دہانیوں سے کچھ نہیں ہوا، ایچ آر سی پی نے یقین دہانی کرائی تھی، انکی تو خود اپنی اتنی بڑی رسائی نہیں ہے لیکن اسکے باوجود انہوں نے کچھ نہیں کیا۔ ہم نے ایک دو بار درخواست کی تھی کہ ہمیں اقوام متحدہ تک جانے کیلئے مدد کریں لیکن وہ یہ بھی نہ کرسکے، تو بعد میں ہم اپنی مدد آپ کے تحت، رابطے پیدا کرکے جنیوا تک گئے اور زاہد سمیت باقی اغواہ شدہ افراد کے مقدمات وہاں پیش کرنے میں کامیاب ہوئے، اسی طرح یو این ورکنگ گروپ نے تمام کیسز کے متعلق پاکستان سے پوچھ کر ہمیں بتایا کہ پاکستان کوئی جواب نہیں دے رہا ہے۔”
زاہد بلوچ ایک طلبہ رہنما تھے، وہ قلم و کتاب اور اظہارِ رائے کے ذریعے اپنی جدوجہد کرنا چاہتے تھے، گوکہ آپ اسکے رائے سے اختلاف رکھ سکتے ہیں، لیکن اسکا طریقہ پرامن تھا، جب پر امن طریقوں پر قدغن لگائی جائے گی پھر نوجوانوں کے پاس بندوق کا سہارہ لینے کے سوا کوئی چارہ نہیں ہوگا۔ 18 مارچ 2018 کو زاھد بلوچ کے اغواء کو چار سال پورے ہورہے ہیں اور ان چار سالوں میں بلوچستان میں جاری جنگ کم ہونے کے بجائے محض شدت اختیار کرچکا ہے، یہ بات یہ ثابت کرنے کیلئے کافی ہے کہ زاھد بلوچ جیسے طالبعلم رہنماوں کے خاتمے سے آپ سیاسی میدان ضروری ویران کردیں گے لیکن جنگی میدان مزید سجیں گے۔