بلوچ قومی تحریک اور ہماری ذمہ داریاں

بلوچ قومی تحریک اور ہماری ذمہ داریاں

27 July 2014

بلوچ سر زمین کے حقیقی وارثوں۔۔۔

پاکستانی قبضے کے بعد بلوچ قومی آزادی کے حصول کیلئے 1948 سے شروع ہونے والی تحریک مختلف ادوار میں مختلف عروج و زوال دیکھنے کے بعد آج ایک مضبوط اور توانا شکل میں جاری ہے ۔ گذشتہ ایک عشرے سے جاری رہنے والے اس جدید بلوچ تحریک مسلح ، سیاسی اور سماجی سطح پر اداروں کی تشکیل نو کے بعد آج ایک منظم انداز میں بڑھ رہی ہے ۔ اس دوران پیغامِ آزادی ہر گلی کوچے اور گدان تک پہنچ گئی، حتیٰ کے یورپ اور امریکا کے ایوانوں تک میں بلوچ جدوجہد آزادی کی گونج سنائی دینے لگی ۔یہ سب ہزاروں بلوچوں کی قربانیوں کے سبب ہی ممکن ہوا ۔ ان کامیابیوں کے بعد قابض ریاست اپنے مکمل قوت کے ساتھ بلوچ قومی تحریک کو کچلنے کیلئے سر گرم عمل ہے ۔ آج قابض ریاست ایک کثیرالجہتی پالیسی اپناتے ہوئے بلوچ قومی تحریک کے خلاف کئی محاذ کھول چکا ہے ۔ ایک طرف اپنے روائتی مظالم پر گامزن ہوکر پاکستانی خفیہ ادارے بلوچ آزادی پسند سیاسی کارکنوں کو اغواء کرکے شہید کررہے ہیں اور انکی مسخ شدہ لاشیں پھینک رہے ہیں تو دوسری طرف بلوچ علاقوں میں قابض نے جرائم پیشہ افراد کو ملا کر کئی ڈیتھ اسکواڈز پروان چڑھا چکا ہے جو مخصوص علاقوں میں اپنا روب و دبدبہ قائم کرکے آزادی پسند سوچ کو دبانا چاہتے ہیں، اس کے ساتھ ساتھ پاکستانی فورسز مختلف آپریشن کرکے بلوچ قومی تحریک کے ہمدردوں کو مالی اور جانی طور پر گزند پہنچا کر انہیں تحریک کے حمایت سے دستبردار ہونے پر مجبور کرنے کی کوشش کررہا، ان سب کے علاوہ بلوچستان میں مذہبی شدت پسندی کو ہوا دیکر بلوچ معاشرے میں تفرقہ بازی پھیلانے کا منصوبہ بھی قابض کے اس کثیرالجہتی پالیسی کا ایک خطرناک حصہ ہے ۔ بلوچ سماج جو صدیوں سے اپنے اندر مختلف عقیدوں کو جذب کرتے ہوئے مکمل مذہبی رواداری اور برداشت کے اصولوں پر گامزن رہا ہے ۔ مذہبی جنونیت کے اسی نفی کے باعث لوگ اپنے قومی شناخت سے زیادہ جڑے ہوئے ہیں ، اسی وجہ سے قومی درد اور خواہشِ آزادی بلوچ میں کسی بھی قوم سے زیادہ ہے ۔ پاکستان بلوچ سماج کے ان بنیادی روادارانہ اقدار پر اپنے مذہبی شدت پسند نظریے کے بدولت حملہ کرکے بلوچ سماج کے اقدار اور بلوچ سیاست کار خ تبدیل کرنا چاہتا ہے ۔

ؑعظیم بلوچ تہذیب و تاریخ کے امینوں۔۔۔

جہاں بلوچ قومی تحریک کے پذیرائی میں عالمی اور علاقائی سطح پر روز افزوں اضافہ ہوتا جارہا ہے ،وہیں ریاستی جبر و بربریت کے شدت میں بھی اضافہ ہورہا ہے ۔ان بڑھتے ہوئے کامیابیوں اور ساتھ ساتھ چیلنجز کو پیش نظر رکھ کر بحیثیت بلوچ ہم پر ذمہ داریاں بھی زیادہ عائد ہوتی ہیں ۔اب تحریک کی کامیابی یا ناکامی اس بات پر منحصر ہے کہ ہم اپنی ذمہ داریوں کو کتنی احسن طریقے سے ادا کرسکتے ہیں ۔ ایک بلوچ ہونے کے حیثیت سے ہم سب پر یہ فرض ہے کہ ہم بلوچ قومی آزادی کے پیغام کو ہر اس شخص تک پہنچائیں جس تک ہما ری پہنچ ہے ، بلوچ قومی آزادی کیلئے سرگرم عمل سیاسی کارکنوں اور جہد کاروں کی ہر ممکن مدد کریں ، بلوچ قومی مفادات کو ملحوظِ خاطر رکھ کر دشمن کو کسی بھی طرح کا کوئی بھی فائدہ پہنچانے سے گریز کریں ، اپنے اردگرد موجود قوم دشمن اور سماج دشمن عناصر کی نشاندہی کریں ، ہمارے خاندان کا کوئی بھی فرد ، عزیز ، رشتہ دار ، ہمسایہ یا دوست اگر بلوچ قومی تحریکِ آزادی کے خلاف کسی بھی عمل کا حصہ ہو تو اسے سمجھاکر ان قوم دشمن سرگرمیوں سے دور رکھیں ، بلوچ قوم پر ہونے والے مظالموں کے خلاف پوری دنیا کو آگاہ کریں ، بلوچ قومی سوال کو اجاگر کرنے میں مصروفِ عمل سیاسی جماعتوں کے ترتیب دیئے گئے پروگراموں میں شرکت کرکے دنیا پر واضح کردیں کہ آزادی ہر ایک بلوچ کا مطالبہ ہے ، مصیبت میں پھنسے کسی بھی سیاسی کارکن یا جہد کار کی ہر ممکن مدد کرنے کی کوشش کریں ، قومی تحریک کو جانی ، مالی ، اخلاقی یا کسی بھی طور کا مدد کرسکتے ہیں تو اس سے نہیں کترائیں ، دشمن بلوچ قوم کو مختلف حربے استعمال کرکے ڈرانا چاہتا ہے لوگوں کے دلوں سے اس ڈر کو ختم کرنے اور جذبہ آزادی ابھارنے کیلئے اپنا کردار ادا کریں ، دشمن بلوچ سماج میں مذہبی انتشار پھیلانا چاہتا ہے ، شیعہ سنی ، ذکری نمازی ، بریلوی دیوبندی جیسے تفرقات پیدا کرکے عوام کو قومیت سے دور رکھنا چاہتا ہے اور مذہبی شدت پسندوں کو ہمارے بیچ جگہ دیکر اعتدال پسند بلوچ اقدار کو مسخ کرنا چاہتا ہے ان جیسے مذہبی تفرقات کی نفی کرکے صرف اپنی پہچان قومیت سے جوڑنے کیلئے ہر جگہ تبلیغ کریں اور مذہبی شدت پسندی و شدت پسندوں کو اپنے اندر گھسنے کا موقع نا دیں ۔

بلوچ ماوں,بہنوں,بھائیوں اور بزرگوں۔۔۔

آج قومی تحریک ہم سے تقاضہ کررہی ہے کہ ہم اپنے فرائض احسن طریقے سے نبھاکر اپنی منزل آزادی سے قریب تر ہوجائیں ، ہمیں اپنی ذمہ داریوں کی پہچان کرکے یہ داغ غلامی ہمیشہ کیلئے اپنے ماتھے سے مٹاسکتے ہیں ۔ اٹھو اے بلوچوںتمہارے پاس کھونے کیلئے غلامی اور پانے کیلئے پوری دنیا رکھی ہے۔

نشر و اشاعت۔ بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد

Share to