ریاستی انتخابات کا بائیکاٹ کیوں ضروری ہے


بلوچ راج
جیسے کہ آپ سب کے علم میں ہوگا کہ ریاست نے 8 فروری 2024 کو اپنے نام نہاد انتخابات کا اعلان کر دیا ہے ۔ بلوچستان میں ریاستی انتخابات کی حقیقت سے ہر کوئی واقف ہے کہ کس طرح ڈیتھ اسکواڈز اور منشیات فروشوں کو انتخابات کے نام پر پارلیمنٹ بھیجا جاتا ہے اور بعدازاں انہیں بلوچستان کے نمائندے کے طور پر دنیا میں پیش کیا جاتا ہے تاکہ ایک طرف انتخابات کا ڈھونگ رچا کر دنیا میں یہ ثابت کرنے کی کوشش کی جائے کہ بلوچستان کے لوگ اس ریاستی نظام پر یقین رکھتے ہیں تو دوسری جانب اپنے جرائم پیشہ افراد کو پارلیمنٹ میں بھیج کر انہیں سیاسی حیثیت دیا جائے۔ اس حقیقت سے کوئی بھی انکار نہیں کر سکتا کہ بلوچستان کو اس وقت ریاستی فورسز چلا رہے ہیں۔ بلوچستان میں اس وقت جتنے بھی فیصلے ہوتے ہیں وہ کوئٹہ کینٹ اور اسلام آباد میں ریاستی فوج کرتی ہے لیکن پارلیمنٹ میں چند افراد کو بیٹھا کر یہ تاثر دیا جاتا ہے کہ بلوچستان کے لوگوں کو پارلیمنٹ میں نمائندگی ہے۔ جس انتخابات کیلئے ریاست اپنی تمام طاقت استعمال میں لا رہی ہے اس میں کھڑے ہونے والے شفیق مینگل جیسے عالمی دہشتگرد ہیں جن کے ہاتھوں بلوچ خون سے رنگے ہیں۔ ریاست کیلئے یہ انتخابات اس لیے بھی ضروری ہیں کہ وہ دنیا میں بلوچستان پر اپنے ناجائز قبضے کو جواز فراہم کر سکیں۔ ان الیکشن میں حصہ لینا اور ان کا حصہ بننا بلوچستان میں ریاست کے ناجائز قبضے کی حمایت کرنے کے مترادف ہوگا۔ جو سیاسی پارٹیاں ان الیکشنز میں حصہ لے رہی ہیں ان کے ہاتھ کسی نہ کسی طرح بلوچ نسل کشی میں ملوث ہیں ۔
باشعور بلوچ قوم
ریاست کے نام نہاد انتخابات کا قومی بائیکاٹ اس لیے ضروری ہے تاکہ دنیا کو یہ دیکھایا جا سکیں کہ بلوچ قوم ریاست کے ناجائز قبضے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ اپنی آزادی کی خواہش رکھتی ہے۔اگر بلوچ قوم ان انتخابات کو پچھلے انتخابات کی طرح ناکام بنائے گی تو دنیا میں یہ پیغام جائے گا کہ بلوچ قوم ریاست کے اس ناجائز قبضے پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ قومی آزادی کے جدوجہد پر یقین رکھتا ہے جسے ریاست تشدد سے ختم کرنے کی کوشش کر رہی ہے۔ ریاست اس وقت بلوچستان میں مکمل طور پر اخلاقی شکست کھا چکی ہے۔ آج بلوچستان کے گھر گھر سے لوگ ہزاروں کی تعداد میں ریاستی جبر اور تشدد کے خلاف سڑکوں پر ہیں۔ ریاست بلوچستان میں موجود اس نفرت کو مٹانے کیلئے انتخابات کا سہارہ لے رہی ہے جبکہ ان نام نہاد انتخابات کے ذریعے دوسری جانب اپنے جرائم پیشہ افراد کو سیاسی نمائندگی دینا چاہتا ہے۔ باشعور بلوچ عوام اس بات کا اچھی طرح ادراک رکھتی ہے کہ بلوچستان کے مسائل کا حل بلوچستان سے ریاست کے قبضے کے خاتمے میں ہے جب تک بلوچستان پر پاکستان کا غیر قانونی قبضہ قائم رہے گا اس وقت تک بلوچستان میں کوئی بھی بہتری ممکن نہیں ہے کیونکہ بلوچستان کو آج جس آگ کا سامنا ہے یہ ریاست کی لگائی ہوئی ہے۔ ریاست کے انتخابات کا بائیکاٹ ہر ذی شعور بلوچ پر فرض ہے تاکہ بلوچ قوم اس ریاست سے اپنے رشتہ کا حقیقی اظہار کریں۔ آج جو پارٹیاں بلوچستان کے حقوق اور مسائل کا حل پارلیمنٹ کو قرار دے رہی ہیں درحقیقت ان تمام جرائم میں یہ براہ راست ملوث رہے ہیں۔ قوم پرستی کے نام پر ووٹ بٹورنے والی جماعتیں گزشتہ دہائیوں سے ریاست کے وفادار اور ان کی حکومتوں کا حصہ رہے ہیں لیکن جب بھی انہیں حکومت ملی ہے انہوں نے فوج کے ساتھ ملکر بلوچ نسل کشی کو مزید منظم کر دیا ہے۔ انہیں جب بھی حکومت ملی ہے انہوں نے شاہ سے زیادہ شاہ کی وفاداری کا کارنامہ سرانجام دیا ہے جس کی سب سے بڑی مثال نیشنل پارٹی کی حکومت رہی ہے ۔
باعلم بلوچ راج
بلوچ قومی آزادی کی تحریک کی زمہ داریاں کسی ایک مخصوص جماعت کے کندھے پر نہیں بلکہ ان کا زمہ تمام بلوچ قوم کولینا چاہیے۔ ایک طرف جہاں ہزاروں کی تعداد میں بلوچ نوجوان ریاستی قبضے کے خاتمے کیلئے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کر رہے ہیں اور ہر تکلیف اور مشکلات کاسامنا کر رہے ہیں تو دوسری جانب یہ عوام کی زمہ داری بنتی ہے کہ وہ ریاست کے منصوبوں کو ناکام بناتے ہوئے ریاست کے کسی بھی قبضہ گیری منصوبے کو ریجکٹ کریں۔ انتخابات جیسے ریاستی عمل سے دور رہ کر بلوچ قومی جہدکاروں کو واضح پیغام دیں کہ بلوچ قوم اس جدوجہد میں ان کے ساتھ ہے اور ریاستی نام نہاد نمائندوں پر کسی بھی طرح بھروسہ نہیں رکھتا۔ قومی تحریکیں قومی امانت ہیں ایسے حالات میں جہاں ایک طرف قابض ریاستیں بلوچ قوم پر میزائل سے حملے کر رہی ہیں تو دوسری جانب ووٹ دے کر ہم تاریخی جرم کا مرتکب ہونگے۔ ایک ایسی صورتحال میں جہاں قابض ریاستیں بلوچ نسل کشی کو منظم کر چکی ہیں ایسے حالات میں بلوچ راج کوریاستی انتخابات کا بائیکاٹ کرکے ریاست کے قبضہ گیری منصوبوں کو رد کر دینے کی ضرورت ہے۔ جو انتخابات بلوچستان میں ہونے والے ہیں ان میں تمام جرائم پیشہ افراد حصہ لے رہے ہیں جنہیں پاکستانی فوج سامنے لانا چاہتی ہے۔ کوئی بھی باشعور بلوچ اس مجرمانہ عمل میں ریاست کا ساتھ نہ دیں اور ووٹ سے بائیکاٹ کرکے بلوچ قومی جہدکاروں سے اپنی وابستگی کا اظہار کریں تاکہ دنیا کو دیکھایا جا سکیں کہ بلوچ قوم ریاست کے اس نام نہاد نظام پر یقین نہیں رکھتا بلکہ وہ اپنی قومی آزادی اور خودمختیاری پر یقین رکھتی ہے۔

Share to