ریاست کی ڈیتھ اسکواڈ پالیسی

ریاست کی ڈیتھ اسکواڈ پالیسی

بلوچ راج


بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے اور بلوچستان میں اپنے قبضے کو مضبوط کرنے کیلئے ریاست کی جانب سے ہمیشہ سے مختلف قسم کے ہتکھنڈے اپنائے گئے ہیں جس میں سافٹ پاور کی شکل میں کیڈٹ کالجز، پروپیگنڈا چینلز، ترقی و ڈیولپمنٹ جیسے بیانیہ، تحریک کے خلاف پرنٹ ، الیکٹرونک و سوشل میڈیا کا موثر استعمال، مذہبی پروپیگنڈا، کتابوں پر بندشیں، اسکول و سینٹرز پر حملے، خوف و ہراس پھیلانا اور ایسے کئی دیگر پالیسیاں شامل ہیں جہاں سے بلوچ قومی تحریک کو کاؤنٹر کرنے اور عوام کے اندر قومی جدوجہد کے حوالے سے بدگمانیاں پیدا کرنے کی کوششیں کی گئی ہیں اس طرح سافٹ پالیسیوں سے زیادہ دشمن نے بلوچ قومی جہد و شناخت مٹانے اوربلوچ قومی شناخت کو پاکستانیت میں بدلنے کیلئے ہمیشہ سے تشدد اور ہارڈ پالیسیوں کو زیادہ اہمیت دی ہے جس میں بلوچستان میں روزانہ کی بنیاد پر فوجی آپریشنز، قتل و غارت، ہیلی کاپٹرز سے مسخ شدہ لاشیں پھینکنے، فیک انکاؤنٹر میں بلوچ نوجوانوں کا قتل،اغوا و تشدد ، چیک پوسٹوں پر تذلیل اور ان میں سب سے زیادہ اہمیت ڈیتھ اسکواڈز کی فعالیت میں دی گئی ہے جو ریاست کی سرپرستی میں ایسے جرائم پیشہ افراد پر مشتل گروہوں کا قیام عمل میں لانا جنہیں باقاعدہ ریاست نے ہتھیار فراہم کرکے ہر علاقے میں چھوڑ دیا ہے۔ آزادی پسندوں کو نقصان پہنچانے، سیاسی ورکرز کو نشانہ بنانے، جہدکاروں کے خاندانوں کو خوف و ہراس میں مبتلا کرنا و جبر و وحشت کی تمام حربے استعمال کرنے کا اختیار حاصل ہے ۔بلوچ جہدکاروں کو نقصان پہنچانے کے علاوہ ریاست نے انہیں بلوچ سوسائٹی کو خانہ جنگی، اخلاقی معیارات، اقتدار و خوف و ہراس پھیلانے کا بھی زمہ دیا ہے ۔

باشعور بلوچ قوم


فوج اور آئی ایس آئی و ایم آئی کی پشت پناہی میں یہ ڈیتھ اسکواڈز بلوچستان بھر میں چوری، ڈکیتی، اغوا برائے تعاوان، زمینوں پر قبضہ کرنے، اسکولوں کو جلانے، زاتی دشمنیاں نکالنے، بلوچ عورتوں کی عصمت دری، انہیں ذہنی دباؤ دینے، چادر و چار دیواریوں کی پامالی، خانہ جنگی پیدا کرنے، سیاسی جہدکاروں کو نقصان پہنچانے، سماجی کام میں خلل ڈالنے، تحریک کو ہمدردوں کو قتل کرنے، مخبری کرنے، اجتماعی قبریں بنانے سمیت ہر طرح کی بربریت پر مبنی جرائم کا ارتکاب ہو رہی ہیں۔ ان کی وجہ سے بزرگوں کی عزتیں ، عورتوں کی پاکیزگی، بچوں کا مستقبل، گھروں کی چار دواری کچھ بھی محفوظ نہیں ۔ فوج اور آئی ایس آئی کے ایماء پر انہوں نے بلوچستان کو ایک جنم میں تبدیل کر دیا ہے۔ حالات اس نہج تک پہنچ چکے ہیں اب یہ ڈیتھ اسکواڈز اب اتنے منظم ہو چکے ہیں کہ نام نہاد سیاسی پارٹیاں بھی انہی کے سہارے بلوچستان میں اپنی ساخت بچانے کی تگ و دو میں ہیں اور نام نہاد وفاقی و قوم پرست جماعتیں بھی بلوچستان میں اپنے سہارے کیلئے ڈیتھ اسکواڈز قائم کر چکے ہیں اور ان کو پالنے کا سلسلہ اب تک جاری ہے۔ حالیہ دنوں وڈھ میں جس طرح سفاک قاتل شفیق مینگل نے اپنے گروہ ایکٹیو کیے، عوام کے گھر و معاش کو نقصان پہنچایا اور گزشتہ ایک عرصے سے جس طرح شفیق مینگل نے خضدار و گرد و نواح میں غیر انسانی جرائم مرتکب کیے ہیں اس جیسے سفاک قاتل کے خلاف مزاحمت کے بدلے اس کو نام نہاد قبائلی عزت دی گئی جس سے نا صرف بلوچستان میں ان جیسے سفاک قاتلوں کی حکمرانی ظاہر ہوتی ہے بلکہ ان نام نہاد قبائلی عمائدین کا پردہ بھی چاک ہو جاتا ہے جو قبائلیت کے آڑ میں کسی نہ کسی طرح ریاست اور سرکار کے پیرول پر کام کر رہے ہیں۔ وہ کام جو فوج کے ایک کرنل کے حکم پر کیا جا سکتا تھا اس کو قبائلیت کا رنگ دے کر ختم کیا گیا ۔ بلوچستان میں ڈیتھ اسکواڈز کوئی الگ لوگ نہیں بلکہ ریاست کے وہ مخبر ہیں جنہیں جاسوسی کا کام لینے کے بجائے بندوق تھما کر قومی جدوجہد اور عام عوام کو تکلیف پہنچانے اور بلوچ قومی شناخت ختم کرنے کا زمہ دیا گیا ہے۔ یہ ڈیتھ اسکواڈز ڈیرہ بگٹی سے لیکر مکران تک پھیلے ہوئے ہیں ۔

باعزت بلوچ راج


ہم بارہا اس بات کا اظہار کر چکے ہیں کہ جب تک بلوچستان پر ریاست کا قبضہ قائم ہے اس وقت تک بلوچستان میں ریاست مختلف پالیسیوں کے تحت قہر برستا رہے گا۔ جہاں ریاست ایک طرف خود جبری گمشدگیوں، قتل و غارت، چاردر و چار دیواریوں کی پامالی میں ملوث ہے وہیں انہوں نے علاقائی سطح پر بھی ایسے گروہ تشکیل دیے ہیں جنہیں یہی زمہ داریاں سونپ دی گئی ہیں اگر بلوچ قوم کو ان مظالم اور تشدد سے چھٹکارہ حاصل کرنا ہے اور اپنی شناخت، سائل و سائل اور اپنے لوگوں کی عزتیں محفوظ کرنی ہیں تو انہیں پاکستانی قبضے کے خلاف جاری بلوچ قومی تحریک میں اپنی شرکت یقینی بنانی ہوگی۔ ایک آزاد اور خودمختیار بلوچستان ہی بلوچ قوم اور یہاں کے رہنے والوں کو ڈیتھ اسکواڈز جیسے ناسور اور قابض پاکستانی فوجی جیسے جانوروں سے محفوظ کر سکتی ہے۔ ایک کالونی کی حیثیت سے بلوچ قوم کے خلاف ریاست کے جرائم اور قتل و غارت اور ڈیتھ اسکواڈز جیسی پالیسیوں میں اضافہ ہو سکتا ہے لیکن یہ قطی ممکن نہیں کہ ریاست ان کا سہارہ چھوڑ دیں کیونکہ قبضہ گیر کی خواہش غلام قوم کی عزت نفس کی حفاظت کرنا نہیں بلکہ اس کو پامال کرنے میں ہے۔ جس شدت سے بلوچستان میں قومی تحریک منظم ہوگی اسی شدت سے ان کا خاتمہ ممکن ہو سکے گا۔

نشر و اشاعت۔ بی ایس او آزاد لٹریچر کمیٹی

Share to