مسنگ پرسنز ڈے

مسنگ پرسنز ڈے

!بلوچ راج

جبری طور پر کسی بھی افراد کو گمشدگی کا نشانہ بنانا دنیا کے ہر قانون اور ریاست میں سنگین جرم قرار دیا جا چکا ہے اور ایک قبضہ گیر اور جابر ریاست کے علاوہ دنیا کی کوئی بھی جبری گمشدگی جیسے سنگین جرائم میں ملوث نہیں ہوتا بلکہ کسی بھی لاپتہ افراد کو ڈھونڈنا اور اس کا گمشدگی کی صورت میں سراغ لگانے کا زمہ دار ریاست ہوتا ہے لیکن جب قومیں غلام ہوتی ہیں، اپنے زمین، زبان، حق و اختیار سے محروم ہوتی ہیں تو ان کے لوگوں کو جبری گمشدگی ہی نہیں بلکہ قتل و غارت اور دنیا کی تاریخ میں ان کی خرید و فروخت کی بھی مثالیں موجود ہیں جب دنیا بھر کے قبضہ گیر اور سامراجی طاقتوں نے افریقہ جیسے ملکوں کو قبضہ کرکے پھر ان کے لوگوں کو بطور غلام فروخت کیا۔ پاکستان بلوچستان پر اپنے اس جبری قبضہ کو مستحکم و مربوط بنانے کیلئے جبری گمشدگی کے سنگین جرم کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے تاکہ نوجوان و قومی فکر رکھنے والے افراد قومی آزادی کی جدوجہد اور تحریک سے دوری اختیار کریں البتہ پاکستان پہلا قبضہ گیر نہیں بلکہ سری لنکا نے جب تامل ٹائگر کے خلاف کریک ڈاؤن کا فیصلہ کیا تو اس میں بھی جبری گمشدگی کو بطور ہتھیار استعمال کیا ، دنیا کی قبضہ گیر اپنے قبضے کو منظم بنانے کیلئے ہر طرح کے ظلم و جبر اور وحشت کا استعمال کرتے ہیں۔

!تحریک کے ہمدروں

جبری گمشدگیاں جہاں دشمن کا ہتھیار اور جبر و وحشت کی انتہا ہے وہیں دوسری جانب یہ قبضہ گیر کی واضح شکست کی بھی نشانیاں ہیں کیونکہ جبری گمشدگی جنگ کا آخری حربہ ہے لیکن بلوچ زمین پر قابض ریاست گزشتہ بیس سالوں سے مسلسل اس عمل کو دہرا رہی ہے لیکن آج بھی بلوچستان کے کونے کونے میں قومی آجوئی کی سوچ و فکر ایک منظم شکل میں پائی جاتی ہے اور تحریک دن بدن شدت اختیار کرتی جا رہی ہے ۔ بلوچ سرزمین پر قبضہ گیر کی اس پالیسی کو ناکام بنانے میں عظیم قربانیاں ان سیاسی و غیر سیاسی بلوچ جہدکاروں کی ہے جو گزشتہ کئی سالوں سے ریاست کے زندانوں میں قید انہیں اپنے حق پر ہونے کی گواہی دے رہےہیں یا وہ بلوچ جہدکار جنہیں ریاست نے جبری گمشدگی کے بعد شدید تشدد کا نشانہ بناکر شہید کیا تھا آج انہی کی قربانیوں اور جدوجہد کا ثمر ہے کہ بلوچ قومی تحریک بلوچستان بھر میں پھیل چکی ہے اور ہر بلوچ اپنی غلامی اور ریاست کے قبضے کا احساس رکھتی ہے۔ دشمن کی جانب سے جبری گمشدگی کے سنگین مظالم کو لیکر جس طرح بلوچ عوام کو خوفزدہ اور انہیں تحریک سے دوری اختیار کرنے کو کہا گیا ہے وہ حربہ آج لاپتہ افراد کی جانب سے مکمل طور پر ناکام بنایا جا چکا ہے۔ قومی تحریکیں ریاستی ظلم و جبر اور وحشت سے کبھی بھی ختم نہیں ہوتے جس طرح سیاسی جہدکاروں کو قانونی حقوق سے محروم رکھ کر زندانوں میں قید کیا گیا ہے یہ قبضہ گیر کی وحشت کی انتہا ہے ۔

!باشعور بلوچ عوام

کوئی بھی قبضہ دائمی نہیں ہوتا ، پاکستان جیسی ریاستیں جن کا کوئی نظریاتی بنیاد ہی نہیں وہ کسی نہ کسی دن لازمی طور پر ٹوٹ جائیں گی مگر محکوم اور غلام قومیں اپنے مستقبل کا فیصلہ خود کرتی ہیں، بلوچ غلام اس وقت پاکستانی فوجی قبضے میں ہے جہاں بلوچستان کے چپے چپے میں فوج تعینات کرکے بلوچستان کو زبردستی طور پر اپنے ساتھ جوڑا گیا ہے جس کے خلاف بلوچ قومی تحریک جاری ہے جہاں ہزاروں ساتھیوں نے اپنی جانوں کا نذرانہ پیش کیا ہے جبکہ ہزاروں افراد آج بھی زندان میں قید و بند ہیں ، ہزاروں ایسے افراد ہیں جنہیں گمشدگی کا نشانہ بناکر فیک انکاؤنٹر میں قتل کیا گیا ہے یا اس کی مسخ شدہ لاش کسی اجتماعی قبر میں دفنائی ہے یا ذہنی طور پر ناکارہ بناکر انہیں چھوڑ دیا گیا ہے ۔ بلوچ راج ان تمام افراد کی قربانیوں کو نا صرف قدر کی نگاہ سے دیکھتی ہے بلکہ قومی تحریک کیلئےا ن کی قربانیاں عظیم ہیں جنہیں تاریخ میں ہمیشہ کیلئے یاد رکھا جائے گا۔ لاپتہ افراد کی انہی قربانیوں کو مدنظر رکھ کر تنظیم نے سابق وائس چیئرمین ذاکر مجید کی گمشدگی کے دن کو بطور مسنگ پرسنز ڈے منانے کا فیصلہ کیا جسے اب ہر سال مسنگ پرسنز ڈے منایا جاتا ہے نا صرف ذاکر جان بلکہ بلوچستان کیلئے زندان کی صعبتوں کو برداشت کرنے والا ہر بلوچ تاریخ کے اوراق میں یاد رکھا جائے گا اور ان کی قربانیوں کو یاد رکھا جائے گا۔ قومی تحریک دشمن کے ایسے حربوں سے کسی بھی صورت ناکام نہیں ہوگی بلکہ مزید مستحکم و مضبوط ہوکر کامیابی کے منازل طے کرے گی۔

منجانب۔ بی ایس او آزاد

Share to