انسانی حقوق کا عالمی دن
10 December 2016
۔1948 انسانی تاریخ میں ایک انتہائی اہمیت کا حامل سال ہے، اسی سال انسانوں کے بنیادی حقوق کی دفاع کے لئے عالمی منشور منظرعام پرلایا گیا۔ اور اسی سال پاکستان کی طرف سے بلوچستان پر قبضہ کر کے یہاں انسانی حقوق کی سنگین پامالیوں کا بھی آغاز کیا گیا۔مختصر یہ کہ بلوچستان میں پاکستانی قبضہ گیریت اوربربرےت کی تاریخ اتنی ہی قدیم ہے جتنا کہ انسانی حقوق کے عالمی منشور کی تاریخ۔
انسانی حقوق کے عالمی دن کا باقاعدہ اعلان 1950 میں ہوا۔ تب سے لے کر آج تک ہر سال دنیا کے بیشتر ممالک اس دن کو انسانی حقوق کی مناسبت سے منا کر بنیادی انسانی حقوق کی دفاع کا عہد کرتے ہیں۔مگر چھ دہائیوں سے زائد اس طویل عرصے میں نہ دنیا کو بلوچستان میں بسنے والے مظلوم انسانوں کی آہیں سنائی دیئے اور نہ پاکستان کی طرف سے ہونے والی غیر انسانی مظالم اور انسانی حقوق کی پامالیاں نظر آئیں۔
پوری دنیا میں جس آزادیِ اظہار رائے کا راگ الاپا جاتا ہے، وہی بنیادی حقوق بلوچستان کے عوام کیلئے ایک غیر تعبیر شدہ خواب کی حیثیت رکھتا ہے۔ ایک طویل مدت سے پورے بلوچستان میں آزادی تقریر اور آزادی تحریر پر مکمل پابندی عائد کی جاچکی ہے۔اور جن جن افراد نے ریاست کے اِس غیر جمہوری حکم کی خلاف ورزی کرنے کی کوشش کی ہے آج وہ اپنے اس ”سنگین جرم“ کی پاداش میں لاپتہ کیے جا چکے ہیںا ور غیر انسانی تشدد کا شکار بن رہے ہیں۔اِن لاپتہ افراد کی تعداد سینکڑوں میں نہیں بلکہ ہزاروں میں ہے۔ وائس فار بلوچ مسنگ پرسنز کے مطابق اب تک22ہزار سے بلوچوں کو بلوچستان کے مختلف علاقوں سے اغواءکرکے لاپتہ کیا جا چکا ہے۔
بلوچستان میں جہاں دوسرے بنیادی انسانی حقوق کی دھجیاں اڑائی جا رہی ہیں، وہیں درس و تدریس پر بھی ریاست کی جانب سے مرتب کردہ تعلیم دشمن پالیسیوں کے سیاہ بادل چھائے ہوئے ہیں ۔ اِس وقت بلوچستان کے سینکڑوں تعلیمی ادارے ایف سی اور پاکستانی آرمی کی چھاﺅ نیوں میں تبدیل کی جاچکی ہیں ۔جہاںقلم کی جگہ بندوق کی حکمرانی ہے۔ صرف یہی نہیں، بلکہ پروفیسر صبا دشتیاری اور زاہد آسکانی جیسے سینکڑوں تعلیم دوست شخصیات محض اس بنا پر شہید کیے جاچکے ہیں کہ بلوچ سماج کو تعلیم سے آراستہ کرنے کی جد و جہد میں اُنکا کردار تھا۔
اسی سال کے محض آخری چار مہینوں کے دوران بلوچستان میں تین انسانیت سوز واقعات پیش آئے۔ جس کی وجہ سے ستر با صلاحیت وکلا، ایک سو کے قریب ہنر مند بلوچ طلبا اور پچاس سے زائد عام شہری اپنی قیمتی جانوں سے ہاتھ دھو بیٹھے۔
بلوچستان میں انسانی حقوق کی ان سنگین پامالیوں کا ذمہ دار پاکستان اقوام متحدہ کا رکن ہونے کے باوجود نہ صرف بلوچوں اور سندھیوں کی نسل کشی کر رہا ہے بلکہ مقبوضہ بلوچستان میں سنگین جنگی جرائم کا بھی مرتکب ہو رہا ہے۔نہ صرف پاکستان بلکہ چین جو کہ اقوام متحدہ کا ممبر ہونے کے ساتھ ساتھ سکیورٹی کونسل کا مستقل رکن بھی ہے، بلوچ نسل کشی میں پاکستان کا معاون ہے۔ مگر اس حوالے سے اقوام متحدہ اور پوری مہذب دنیا کی خاموشی ایک سوالیہ نشان ہے۔
ضرورت اس امر کی ہے اقوام متحدہ اپنے رکن ممالک پاکستان کی بلوچستان پر جبری قبضہ ختم کرنے اور بلوچ عوام کی نسل کشی پر پاکستان کو جواب دہ ٹہرانے کے لئے اپنا کردار ادا کرے۔ اگر عالمی اداروں، خصوصاََ اقوام متحدہ نے اب بھی اس حوالے سے خاموشی کا رویہ برقرار رکھا تو پاکستانی فورسز کی حراست میں موجود ہزاروں قیدیوں سمےت لاکھوں بلوچوں کی زندگی بدستور خطرات کا شکار ہوں گے۔
نشرو اشاعت: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد