بلوچ خواتین کی جبری گمشدگیاں اور ہماری ذمہ داری
22 November 2014
بلوچ سرزمین کے عظیم وارثوں۔۔۔
دنیا کی تاریخ میں وہ قومیں یاد کیے جاتے ہیں جنہوں نے اپنی ننگ و ناموس کی دفاع ،سرزمین کی حفاظت کیلئے ہمیشہ سامراجی قوتوں سے طویل جنگیں لڑی ہیں وہ قوموں کی نام و نشان تاریخ کے صفحوں سے مٹ جاتی ہے جنہوں نے سامراج وظالم طبقوں کی غلامی قبول کی ہے جب محکوم قومیں غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہیں تواس عمل کو سامراجی قوت اپنے لیے موت تصور کرتے ہیں وہ مظلوم قوموں کی جدجہد کو کچلنے کیلئے اپنے تمام تر طاقت کا استعمال کرتے ہیں عوام کی زیادہ سے زیادہ تحریک میں شمولیت اور جدوجہد کی مرحلہ وار آگے بڑھنے سے ظالم طبقہ بربریت کی انتاء کو پہنچ کر حیوانیت پر اُترآتے ہیں سامراجی ظلم و جبر کی شدت بڑھنے سے تحریک میں مزید تیزی آجاتی ہے کیونکہ قومی تحریکیں سامراجی بربریت سے ناکام ہونے کے بجائے مزید منظم اور مستحکم ہوتے ہیں
غیرت مند بلوچ فرزندوں۔۔۔
۔ 1948 کو انگیریز سامراج کی پیدا کردہ ناجائز ریاست نے ہماری دھرتی کو قبضہ کرکے ہمیں غلام بنایا لیکن بلوچ سرزمین کے بہادرسپوت اپنے ننگ و ناموس کی دفاع اور اپنے دھرتی ماںٗ کی حفاظت کیلئے کمر بستہ ہوگئے بلوچوں نے ازل سے غلامی قبول کرنے سے انکار کرتے ہوئے اپنے زندہ قوم ہونے کا ثبوت دیا پاکستان نے اپنے قبضے کے شروع دنوں سے لیکر آج تک ہمیشہ جنگی قوانین کو پامال کیا ہے میدان جنگ میں بلوچ جہد کاروں کے سامنے پسپہ ہونے کے بعد عام بلوچ آبادیوں پر حملہ آوار ہونے سے لیکر خواتین و بچوں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بنانے کی اپنی تاریخ ہے پاکستان نے ہر دور میں بلوچ خواتین کو اپنے بربریت کا نشانہ بنایا 70کے دہائی میں بھٹو سامراج کے دور میں کوہلو،کاہان ، چمالنگ کے علاقوں سے سینکڑوں بلوچ خواتین اور بچوں کواجتماعی طور پر شہید کیا سینکڑوں کو اغواہ کرکے اپنے زندانواں میں لے گئے بلو چ خواتین کو نشانہ بنانے کا تسلسل آج تک شدت کے ساتھ جاری ہے گذشتہ روز قابض پاکستانی فورسز نے ڈیرہ بگٹی کے علاقے میں ایک آبادی پر حملہ آور ہوکر اپنے روائتی انداز میں عام آبادیوں پر شلنگ شروع کردی خواتین و بچوں کو تشدد کا نشانہ بنایا خواتین کو گھروں سے نکال کر جس میں دو بلوچ خواتین کو چار بچیوں سمیت اغواہ کیا اور اپنے ساتھ لے گئے جو تاحال لاپتہ ہے اس سے قبل بھی اسی علاقے سے قابض پاکستانی فورسزمتعدد خواتین و بچوں کو اغواہ کرچکے ہے رات کی تاریکی میں چادر و چار دیواری کو پامال کرکے گھروں میں گس کر وہاں موجود مردوں کو شہید کرتے ہیں یا اپنے ساتھ لے جاتے ہیں مردوں کے سامنے ان کے ماںٗ،بہن ،بیوی اور بچوں کو انسانیت سوز تشدد کا نشانہ بناتے ہیں بعض اوقات مردوں کے ساتھ خواتین اور بچوں کو بھی اپنے ساتھ لے جاتے ہیں ۔کوہلو کا ہان کے علاقے سے بلوچ خواتین ٹیچر بانک زرینہ مری جس کو گذشتہ کئی سال قبل اغواہ کیا جو تاحال لاپتہ ہے مشکے میں آپریشن کے دوران عام آبادیوں پر شلنگ کرکے خواتین و بچوں کو شہید کیاگذشتہ ماہ تمپ میں مارٹر گولہ فائر کرکے نویں جماعت کا اسٹوڈنٹ بی بی شہناز کو شہید کیا جبکہ گذشتہ سال کرچی میں بی آر پی کے سربراہ براہمدگ بگٹی کے ہمشیرہ اور بھانجی کو سر عام فائرنگ کرکے شہید کیا ۔
بلوچ سرزمین کے بہادرسپوتوں۔۔۔
ڈیرہ بگٹی میں چھ بلوچ خواتین کا اغواہ بلوچ سماج کیلئے کوئی نیا واقع نہیں ہے مگر یہ بھی حقیقت ہے کہ بلوچ جب تک غلام ہے اس کے غیرت پر یو نہی حملہ ہوتا رہیگا لیکن اس سنگین مسئلے پر غور و فکر کی اشد ضرورت ہے کیونکہ بلوچوں کی سیاسی جنگ پاکستان کیلئے موت بنتا جارہا ہے دشمن اپنے موت کو اپنی آنکھوں سے دیکھ کر تمام تر جنگی قوانین کو تھوڑ کر ظلم کی انتاء کو پہنچ چکا ہے آنے والے وقتوں میں بلوچ گھر و گدانوں میں گس کر خواتین و بچوں نشانے بنانے یا اغواہ کرنے کے واقعات میں شدت کے ساتھ اضافہ ہوگا اور دشمن کے ظلم و جبر سے کوئی بھی بلوچ محفوظ نہیں ہوگا ہمیں آنے والے وقت کا ادراک کرکے سخت حالات کا مقابلہ کرنے کیلئے اپنے آپ کو زہنی حوالے سے تیاررکھنا ہوگا بلوچ قومی تحریک کو مزید منظم اور مستحکم رکھنے کیلئے بلوچ عوام کو زیادہ ے زیادہ کردار ادا کرنے کی ضرورت ہوگی بلوچ عوام اپنے عوامی طاقت کو استعمال کرتے ہوئے دشمن کے ہر ایک سازش کو ناکام بنانے کے ساتھ بلوچ لیڈر شپ ،تنظیم و پارٹیوں کے اتحادکیلئے زور دیں ان کے درمیان اتحاد اور سنگل پلیٹ فارم کیلئے موثر کردار ادا کریں اگر ہم ایسا کرنے میں ناکام رہے تو شاید ہمیں جنگ کو جیتنے کیلئے ایک اور صدی درکار ہوگا اور ہمارے پاس اتنا وقت نہیں ہے۔