پاکستانی انتخابات ،معروضی حقائق اور ہماری ذمہ داریاں
24 July 2018
بلوچ عوام۔۔۔
قومی انتخابات کسی بھی آزاد ریاست کے عوام کے مستقبل کے فیصلے کے تعین کرنے میں ایک اہم کردار ادا کرتے ہیں اس لیئے آزاد ریاستوں کے شہری اپنے ملک کے قومی انتخابات میں بڑھ چڑھ کر حصہ لیتے ہیں تاکہ اپنے مستقبل کے حکمرانوں کو منتخب کرکے اپنی زندگیاں محفوظ بنائیں اور اپنے آنے والے مستقبل کو ایک خوشحال اور پرامن ماحول میسر کیا جاسکیں۔ لیکن مقبوضہ خطوں میں حالات اس کے برعکس ہوتے ہیں وہاں قابض قوت الیکشن کے نام پر اپنے نمائندے مقرر کرتے ہیں جو مقبوضہ خطے میں قابض کی مفادات کا دفاع کرسکے ۔یقیناًاس طرح کے نام نہاد انتخابات مقبوضہ ریاستوں کے عوام کے دکھوں کا مداوا نہیں کرسکتے ۔ اگر مقبوضہ و غلام قوم کے دکھوں کا مداوا انتخابات کرتے تو الجزائر کے عوام 80 فیصد پارلیمانی نمائندگی ملنے کے باوجود پارلیمنٹ میں بیٹھنے سے انکار کر دیتے ہیں اور قومی آزادی کی جدوجہد کو شعوری بنیادوں پر رواں رکھ کر اپنی قومی آزادی حاصل کرتے ہیں ۔
باشعور بلوچ نوجوانوں۔۔۔۔
بلوچ سرزمین میں پاکستانی الیکشن سے تبدیلی کے جو دعوے کیے جارہے ہیں ، حقائق کا مطالعہ کرنے کے لیے ماضی قریب و بعید پر طائرانہ نظرڈالنے کی ضرورت ہے ۔ الیکشن کا انعقاد اور عوام کے ووٹ سے حکومت کا چناؤ خوبصورت جمہوری عمل ہے لیکن پاکستان میں آج تک عوام کی حکومت تسلیم نہیں کی گئی ہے ان ستر سالوں میں بلواسطہ یا بلاواسطہ فوجی آمریت نے حکومت کی ہے جبکہ پاکستان کے زیر انتظام دیگر علاقوں کے نسبت مقبوضہ بلوچستان کی صورتحال ابتداء سے مختلف رہی ہے۔بلوچستان میں پاکستان کے انتظامی امور کو چلانے کے لیے ستر سالوں میں وہ لوگ منتخب کیے گئے جو براہ راست بلوچ قومی شناخت کو پاکستانی فیڈریشن میں ضم کرنے کے حامی تھے ۔بلوچستان پر پاکستانی قبضے سے لیکر آج تک پاکستان کے سول و ملٹری اسٹبلشمنٹ مشترکہ نقطہ نظر رکھتے ہیں جس کی واضح مثال وفاق میں اکثریت حاصل کرنے والی جماعت ملٹری اسٹبلشمنٹ کے نمائندوں کو بلوچستان میں اقتدار سونپ دیتے ہیں ۔ بلوچستان میں الیکشن کے نام پر پاکستانی فیڈریشن کے وہ نمائندے اس شرط پر منتخب کیے جاتے ہیں کہ وہ بلوچ سرزمین کے ساحل و سائل کی لوٹ کھسوٹ ، بلوچ قوم کی سماجی ،معاشی و سیاسی استحصال کے ساتھ سنگین نسل کشی کے سلسلے کی نگرانی کریں گے ۔
بلوچ عوام۔۔۔
پاکستان دنیا میں اپنے گرتی ہوئی ساکھ کو بحال کرنے کے لئے ہر صورت بلوچستان میں الیکشن کا انعقاد کرنا چاہتی ہے تاکہ دنیا کو باور کرا سکیں کہ بلوچ قوم پاکستانی دائرہ میں رہ کر خوشی سے اپنی زندگیاں گزار رہے ہیں جو حقیقت کے بالکل برعکس ہے ۔بلوچستان میں الیکشن کو کامیابی سے ہمکنار کرانے کے لئے پاکستان سر توڑ کوششوں میں مصروف ہے ۔جبکہ عالمی دہشت گرد تنظیم اہلسنت و الجماعت، احمد لدھیانوی،مستونگ حملے میں ہلاک ہونے والے ریاستی ڈیتھ اسکواڈ کا سربراہ سراج رئیسانی، لشکر جنگوئی بلوچستان کے سربراہ رمضان مینگل اور داعش بلوچستان کا نمائندہ شفیق مینگل کو الیکشن لڑنے کی اجازت اس بات کی غماز ہے کہ پاکستان اس خطے منصوبے کے تحت مذہبی انتہاپسندی کی آماجگاہ بناچکا ہے۔پاکستانی فیڈریشن کے انتخابات سے مظلوم قوموں کو حقوق کس طرح حاصل ہوتے ہیں اس کا اندازہ 1970ء کے انتخابات سے لگائے جاسکتے ہیں ۔ 1970ء کے انتخابات میں بنگالی عوام اکثریت حاصل کرنے کے باوجود اقتدار بنگالیوں کے حوالے نہیں کیا جاتا ہے جبکہ اپنے قومی حقوق کے مطالبے پر بنگالیوں کی سنگین نسل کشی کا آغاز کیا جاتا ہے،بنگلادیش کی تاریخ ہمارے لیے سبق آموز شئے ہے۔ آج بلوچستان میں بلوچ قومی آزادی کی جنگ بلوچ عوام کے تابناک مستقبل کی جنگ ہے جو بلوچستان کے با شعورعوام کے مدد و تعاون اور قربانیوں کی بدولت اپنے منزل کی جانب رواں دواں ہیں اور اس تحریک کی مکمل کامیابی کا انحصار عوامی قوت پر منحصر ہوگا۔نام نہاد قابض پاکستان کے انتخابات صرف ہماری قومی غلامی کو مزید طول دینے کا باعث بنے گا۔ بلوچ عوام آزادی پسند بلوچ تنظیموں کے بائیکاٹ کے فیصلے کو کامیابی سے ہمکنار کرکے اپنے روشن مستقبل کے لیے کردار اداکریں۔
جدوجہد آخری فتح تک
نشر و اشاعت: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد