گیارہ اگست یومِ آزادی
11 August 2017
۔ 107 سال کے طویل جدوجہد کے بعد بلوچستان 11اگست 1947ء کو برطانونی قبضے سے آزاد ہوا۔برطانوی سامراج نے بلوچ قوم کی سماجی ساخت، تہذیب و تمدن، بلوچستان کی سیاسی، معاشی و جغرافیائی حیثیت کو شدید متاثر کیا۔بلوچ قوم کی طویل جدوجہد کے بعد بلاآخر 1947ء کو برطانیہ نے اس خطے سے انخلا کیا اور بلوچستان کی آزادی کو دنیا بھر میں تسلیم کیا گیا۔ برطانیہ سے آزادی کے بعد بلوچستان میں پارلیمان کی تشکیل ہوئی اور بلوچستان کی سیاسی تاریخ میں پہلی بار ریاستی انتخابات منعقد ہوئے۔ یوسف عزیز مگسی کے جدید نیشنل ازم کی تسلسل قلات اسٹیٹ نیشنل پارٹی نے عام انتخابات میں بھاری اکثریت سے کامیابی حاصل کی۔ جبکہ برطانیہ سے آزادی کے بعد بلوچ قوم اپنی مسخ کی ہوئی سیاسی، معاشی و جغرافیائی حیثیت کی بحالی میں مصروف بہ عمل تھی کہ اُس وقت برطانوی آشیر باد سے قائم ہونے والی نومولود ریاست پاکستان کے حکمران آزاد و خودمختیار بلوچستان پر قبضے کرنے کیلئے منصوبہ بندی کررہے تھے۔پاکستان کے ساتھ الحاق کی تجویز جب بلوچ پارلیمان میں پیش کی گئی تو بلوچستان کے دونوں منتخب ایوان دارلعوام اور دارلعمراء نے پاکستان کے ساتھ الحاق کرنے کی تجویز کو سختی کے ساتھ مسترد کرتے ہوئے اپنی آزادی پر کسی قسم کے سمجھوتے سے انکار کیا۔ لیکن پاکستان نے تمام تر بین القوامی قوانین کو پامال کرکے 27مارچ 1948ء کو بلوچستان پر فوج کشی کرکے قبضے کرلیا۔ بلوچ قوم نے روز ِاول سے پاکستانی قبضے کو مستردکرکے اپنے وطن کی آزاد حیثیت کے بحالی کیلئے جدوجہد کا آغاز کیا جو تاحال جاری ہے۔
باشعور بلوچ عوام۔۔۔
۔ 27 مارچ 1948ء کو پاکستان نے بلوچستان پر قبضہ کرکے نہ صرف بلوچستان کے سیاسی و انتظامی معاملات اپنے قبضے میں لیے بلکہ بلوچ نسل کشی کا بھی آغاز کیا اور اس کے ساتھ ساتھ ”تقسیم کرو حکومت کرو“ کی پالیسی بھی اپنائی گئی۔ جس میں بلوچستان کے جمہوری سماجی نظام کو تحلیل کرکے نام نہاد نواب و سرداروں کو اپنا نمائندہ مقرر کیا،ان سردار و نوابوں کے ذریعے بلوچستان میں قبائل،نسل و ذات پات کے نام پر بلوچ عوام کو تقسیم در تقسیم کرنے کی کوشش کی گئی اور بلوچستان کے سیکولرسماج کو مذہبی انتہاپسندی میں تبدیل کرنے کیلئے زرخرید مُلاؤں کے ذریعے بلوچستان میں فرقہ واریت کو فروغ دینے کی کوشش کی گئی۔ جبکہ بلوچ عوام نے پاکستانی قبضے اور اس کے منصوبوں کے خلاف روز ِاول سے جدوجہد کا آغاز کیا اور بلوچ قومی تحریک نے پاکستان کے تمام منصوبوں کو بلوچ سرزمین میں ناکام بنایا۔پاکستان نے بلوچ نسل کُشی کے منصوبے کے تحت بلوچ سیاسی کارکنان،اساتذہ، طلباء، دانشور، وکلاء، ڈاکٹر،ادیب سمیت تمام شعبہ فکر سے تعلق رکھنے والے افراد کو چُن چُن کر اغوا کرکے اپنے اذیت گاہوں میں انہیں قتل کیا جبکہ ہر گزرتے وقت کے ساتھ پاکستان بلوچ نسل کُشی کے پالیسی میں مزید شدت لاتا رہا ہے اور اس بات میں کوئی شک نہیں کہ یہ سلسلہ پاکستانی قبضے سے آزادی حاصل کرنے تک برقرار رہے گا۔
پاکستان 11اگست 1947ء کو بلوچستان کی آزادی جیسے تاریخی واقعات کی حقیقت کو مسخ کرنے اور 27مارچ 1948ء کو بلوچستان پر اپنے قبضے کو جواز فراہم کرنے کیلئے ہمیشہ سے دورغ گوئی سے کام لیتا رہا ہے۔پاکستان کی تشکیل سے لیکر تاحال پاکستانی نصابوں میں جھوٹ اور فریب سے کام لیا جارہا ہے۔ پاکستان نے ہمیشہ بلوچستان کے حوالے سے تاریخ کے نصاب میں ابہام پیدا کیا، کبھی بلوچستان کو برصغیر کا مسلمان خطہ قرار دیا تو کبھی بلوچستان پر قبضے کو بلوچ عوام کی منشاء و منظوری قرار دیا۔ پاکستان نے تاریخ کے نصابوں میں اپنے جبری قبضے کو جواز فراہم کرنے کے لئے اسلام کے مقدس نام کو بھی استعمال کیا۔ لیکن اس جدید دور میں عام عوام کو فریب میں رکھنا سورج کو انگلی سے چھپانے کی مانند ہوتا ہے۔ بلوچ عوام خاص کر بلوچ نوجوان سیاسی و سماجی حوالے سے باشعور ہیں پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ عوام کی طویل اور سخت جدوجہد کے بدولت آج بلوچ قومی تحریک کو دنیا بھر میں تسلیم کیا جارہا ہے اور یہ بلوچ عوام کی جدوجہد کا ثمر ہے کہ آج عالمی ادارے پاکستان کے شیطانی عزائم سے واقف ہوچکے ہیں اور پاکستان کے غیر انسانی اقدام کے خلاف دنیا بھر میں آواز بلند کی جارہی ہے۔ آج بلوچ عوام خاص کر بلوچ نوجوانوں کو چایئے کہ اپنے آپ کو بین القوامی سطح کے سیاسی، سماجی و معاشی لیٹریچرسے وابستہ رکھیں اور اپنی علمی صلاحیتوں کو قومی آزادی کی تحریک میں خرچ کریں اور اپنی صفوں میں اتحاد و یکجہتی کو برقرار رکھیں۔ بحثیت قوم ہماری منظم جدوجہد پاکستانی قبضے سے آزادی اور قومی خوشحالی کا ضامن ہے۔
یہ ہمارا یمان ہے کہ فتح ہر حال میں بلوچ عوام کی ہوگی۔
نشر و اشاعت: بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد