بلوچ قوم تاریخ کے فیصلے کن موڑ پر کھڑا ہے، نوجوان سیاسی جدوجہد کو منظم کریں۔
بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے جاری کردہ اپنے ایک بیان میں کہا کہ ریاست نے بلوچستان میں مارو اور پھینکو کی پالیسی واپس بحال کر دی ہے لیکن اس مرتبہ ایف سی اور آرمی کے بدلے ایک الگ فورس تشکیل دی گئی ہے جو بے گناہ قیدیوں کو قتل کرکے انہیں مقابلے میں مارنے کا دعویٰ کرتی ہے جبکہ گھروں میں آپریشنز، چادر و چاردیواری کی پامالی سمیت ہر طرح کی ظلم و جبر جاری ہیں جبکہ دوسری جانب چین سمیت ریاست دنیا بھر میں بلوچستان کے حوالے سے ایک جھوٹا بیانیہ بناکر یہاں پر پہلے سے موجود لوٹ مار کو مزید بڑھانا چاہتا ہے اس سلسلے میں ریاست کئی ممالک کے یہاں بات کر رہی ہے جو خطرناک صورتحال کی عکاسی کر رہے ہیں۔
ترجمان نے کہا کہ ایک جانب جہاں ریاست نے نسل کشی تیز کر دی ہے تو دوسری جانب بلوچستان کو لوٹنے کا عمل بھی تیز کر دیا گیا ہے جبکہ مزید غیر ملکیوں کو بلوچستان میں لانے کی پالیسیاں ترتیب دی جا رہی ہیں ایسے حالات میں بطور ایک زندہ قوم قابض کی ان مزموم مقاصد کو ناکام بنانے کیلئے بلوچ نوجوان بلوچستان میں جاری سیاسی جدوجہد کا حصہ بنیں کیونکہ ایک منظم سیاسی جدوجہد سے ہی ہم دنیا کو یہ ثابت کر سکتے ہیں کہ بلوچ قوم اس وقت حالتِ جنگ میں ہے اور یہاں پر پاکستان غیر قانونی طور پر قابض ہے۔ ایسے حالات میں جب ہماری قومی بقاء خطرے میں ہے ہمیں بطور ایک زندہ قوم اس تحریک کو مزید منظم کرنے اور اسے بلوچستان کے کونے کونے میں پھیلانے کی ضرورت ہے کیونکہ قابض کا خاتمہ ہمیشہ عوامی طاقت سے ہی ممکن ہے۔ اس امر کی شدت سے ضرورت ہے کہ بلوچ نوجوان تحریک کو مزید منظم کرنے کیلئے اپنی توانائیاں خرچ کریں اور اس فیصلہ کن موڑ پر حالات کو بلوچ قومی تحریک کے حق میں تبدیل کرنے کی کوشش کریں کیونکہ قومی تحریک کی کامیابی سے ہی بلوچ قابض کی جانب سے مسلط کردہ جنگ سے خود کو آزاد کر سکتا ہے۔ تحریک کیلئے نوجوانوں کو اپنی صلاحتیوں کا بھرپور انداز میں استعمال کرنا چاہیے تاکہ ریاست کے قتل عام کا قومی طاقت اور قوت سے جواب دیا جا سکیں۔
ترجمان نے بیان کے آخر میں بلوچ نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ بلوچ قوم کو اس وقت ایک نہیں بلکہ کئی محاذ سے قابض کے ہتھکنڈوں کا سامنا ہے اگر بلوچ نوجوانوں نے تحریک کیلئے اپنی صلاحیتوں کا بھرپور استعمال نہیں کیا اور ریاستی ظالمانہ پالیسیوں کے خلاف جامعہ حکمت عملی کے تحت مقابلہ نہیں کیا تو وہ دن دور نہیں جب ریاست بلوچستان کے بچے بچے کو قتل کرکے ایسے ہی پھینک دے گا۔ بلوچ قوم کو ایک قوت، ایک طاقت اور ایک ہی آواز کے ذریعے ریاست کے جابرانہ پالیسیوں کا مقابلہ کرنا چاہیے کیونکہ ریاست ہمیں بطور قوم نشانہ بنا رہی ہے اس لیے ریاستی ظلم کا مقابلہ بھی ہمیں بطور قوم کرنا چاہیے۔