تعلیمی اداروں کو قابض ریاست بطور فوجی کینٹ استعمال کرنا چاہتی ہے۔

تعلیمی اداروں کو قابض ریاست بطور فوجی کینٹ استعمال کرنا چاہتی ہے۔

بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے حالیہ دنوں بلوچستان بھر میں تعلیمی اداروں میں پروفائلنگ، اوتھل یونیورسٹی سے سمیر نامی طلباء کی جبری گمشدگی اور نوجوانوں پر شیلنگ کی مذمت کرتے ہوئے کہا کہ ریاست اس وقت تعلیمی اداروں کو بطور کینٹ استعمال کرنے کی پالیسی پر عمل پیرا ہے اور بلوچستان میں تعلیمی اداروں کے اندر اپنے لوگ تعینات کرنے تک مطئمن نہ ہونے کے بعد ان کو بطور فوجی کینٹ استعمال کرنے کیلئے کام کر رہا ہے اور مختلف تعلیمی اداروں میں موجود ان کے تعینات کیے گئے نام نہاد افراد سہولت کاری کا کام سرانجام دے رہے ہیں۔ جامعات میں موجود ریاست کی سہولت کاری کرنے والے افراد یاد رکھیں کہ بلوچ نوجوان آج باشعور ہیں اور ان کے تمام حرکت و سکنات سے واقف ہیں۔

ترجمان نے کہا کہ ریاست آج سے نہیں بلکہ دو دہائیوں سے طالب علموں کے خلاف ایک کریک ڈاؤن پر عمل پیرا ہے اور باشعور طالب علموں کی جبری گمشدگی، قتل اور انہیں نقصان دینے کی تمام حدیں پار کر دی گئی ہیں بلکہ بی ایس او آزاد سے منسلک قیادت و سینکڑوں دیگر طالب علموں کو ریاست نے اغوا کے بعد قتل کیا ہے۔ کمبر چاکر، الیاس نذر، ذاکر مجید، رسول جان اور درجنوں دیگر طالب علم اسی ریاستی پالیسی کے تحت اغوا و قتل کیے گئے ہیں۔ ریاست کی تعلیم دشمنی آج کی بات نہیں بلکہ ریاست کی بنیاد ہی جھوٹ، فریب اور دھوکہ سے رکھا گیا ہے اور بلوچ نوجوانوں کے اندر بھی یہی جھوٹی تعلیم کی ترویج چاہتی ہے اور اسی کوشش میں بلوچستان کے اندر موجود تمام جامعات کو یرغمال کرکے علم و شعور کا خاتمہ کرکے وہاں ریاستی جھوٹی نصاب پڑھا کر انہیں فوجی سہولت کار بنانے کی کوششوں میں مگن ہے لیکن بلوچ نوجوانوں کو سمجھنا چاہیے کہ ریاستی نصاب میں موجود تعلیم جھوٹ اور فریب کی دین ہے اس لیے انہیں سیاسی اور علمی لٹریچر کو مزید منظم طریقے سے پڑھنا چاہیے تاکہ قابض کے تعلیمی پالیسیوں کا شکار نہ ہوں۔

ترجمان نے بیان کے آخر میں نوجوانوں کو مخاطب کرتے ہوئے کہا کہ ریاست ایک پالیسی کے تحت تعلیمی اداروں میں اپنے لوگ بیٹھا کر انہیں مخصوص ٹاسک دے کر بلوچ طالب علموں کو خوفزدہ کرکے ان کے فکری صلاحتوں کا خاتمہ کرنا چاہتی ہے تاکہ نوجوان اپنے حقوق، قومی غلامی اور ریاستی بربریت پر خاموش رہ کر غلامی کی زندگی کو قبول کریں جن کے خلاف نوجوانوں کو مزاحمت کرنا چاہیے۔ ریاست کی تعلیمی ڈسکورس نوجوانوں کی ایک ایسے کیف کو تیار کرنا ہے جس میں سوچنے سمجھنے اور غور و فکر کرنے کی تمام صلاحتیں ختم ہوں اور وہ ریاستی قبضے میں موجود اپنی قومی غلامی کو ذہنی طور پر قبول کریں۔

Share to