شہدائے مرگاپ کو سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے شہدائے مرگاپ واجہ غلام محمد، شیر محمد و لالا منیر کو ان کی چودہویں برسی پر سرخ سلام پیش کرتے ہوئے کہا کہ شہید غلام محمد و ساتھیوں کی شہادت بلوچ قومی تحریک آزادی کیلئے ایک مشعل راہ کی حیثیت رکھتا ہے جب قبضہ گیر نے عظیم سیاسی رہبروں کو جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بناکر ان کی مسخ شدہ لاشیں مرگاپ کے مقام پر پھینک کر بلوچستان بھر میں ”مارو و پھینک دو ” پالیسی کا آغاز کیا جو آج ایک دہائی کا عرصہ گزرنے کے بعد بھی جاری ہے۔
ترجمان نے کہا کہ غلام محمد بلوچ قومی آزادی کی جدوجہد میں متحرک سیاسی جماعت بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی و رہبر ہی نہیں بلکہ بلوچستان بھر میں ایک اہم سیاسی رہشون کی حیثیت رکھتے تھے جنہیں قبضہ گیر فورسز نے3 اپریل 2009 کو تربت سے ان کے وکیل کچکول علی ایڈوکیٹ کے چیمبر سے جبری طور پر گمشدگی کا نشانہ بنایا اور 5 دن بعد ان کی مسخ شدہ لاش دیگر دو لاپتہ ساتھی و بلوچ رہشون شیر محمد اور لالا منیر کے ساتھ مرگاپ میں پائے گئے ۔ پاکستانی فورسز نے غلام محمد و ساتھیوں کی مسخ شدہ لاش پھینکنے کے ساتھ ہی بلوچستان میں مارو و پھینک دو پالیسی کا آغاز کیا جو آج تک جاری ہے ۔ واجہ غلام محمد کی شہادت سے گوکہ جو خلا پیدا ہوا ہے اسے پُر ہونے میں شاید صدیاں لگیں لیکن کسی بھی عظیم انقلاب کیلئے عظیم قربانیاں پہلی شرط ہوتی ہیں۔ غلام محمد کی شہادت بلوچ انقلاب اور آزادی کی جدوجہد کیلئے ان عظیم قربانیوں میں شامل ہے جو کسی بھی تحریک کیلئے ناگزیر ہوتی ہیں۔ شہدائے مرگاپ نے بلوچ عوام پر واضح کردیا کہ ان کا حقیقی دشمن کون ہے اور قومی آزادی کی جدوجہد کیوں ناگزیر ہے۔ آپ ساتھیوں نے قومی آزادی کی جدوجہد کو اداراتی بنیادوں پر منظم و متحرک کرنے میں کلیدی کردار ادا کیا اور آخری سانس تک اداروں کو منظم کرنے میں مصروف عمل تھے۔
ترجمان نے کہا کہ شہدائے مرگاپ نے جہاں ایک طرف بلوچ عوام کو پاکستانی قبضہ کی حقیقت سے آشکار کیا تو دوسری جانب عوام کے اندر ان نام نہاد سیاسی جماعتوں کی حقیقت کو بھی بےنقاب کیا جو جمہوری سیاست کے دعویدار اور پاکستانی ملٹری کی اشاروں پر چلنے والی پارلیمنٹ میں بیٹھ کر جہاں ایک طرف دشمن کے آلہ کار بنے ہوئے ہیں وہیں دوسری جانب بلوچوں کے حقوق کو جمہوری انداز میں حاصل کرنے کا ڈھونگ رچا رہے ہیں۔ واجہ غلام محمد نے بلوچ عوام کو واضح کر دیا کہ بلوچ قومی تحریک اور ایک آزاد و خودمختیار بلوچستان کے بغیر بلوچ قومی شناخت و وسائل کسی بھی صورت محفوظ نہیں رہینگے۔
ترجمان نے اپنے بیان کے آخر میں کہا کہ شہداء کا فلسفہِ قربانی ایک آزاد اور خودمختیار وطن کا وارث ہونا ہے۔ہم شہداء کے عظیم قربانیوں پر انھیں خراج عقیدت پیش کرتے ہیں اور اس دن کی مناسبت سے اس عزم کا اعادہ کرتے ہیں کہ بلوچ وطن کی آزادی کیلئے جدوجہد جاری رکھی جائے گی اور اس عمل میں کسی بھی قربانی سے بھی دریغ نہیں کیا جائے گا۔