اکبر بگٹی کی قربانیاں رائیگان نہیں جائیں گی، آزادی بلوچوں کا مقدر ہے۔
چیئرمین درپشان بلوچ
قابض پاکستانی ریاست نے اپنی پوری مشنیری کو استعمال میں لاتے ہوئے شہید نواب اکبر خان بگٹی سمیت متعدد بلوچ رہنماؤں کو نمیران کرکے یہ غلط فہمی پیدا کر لی تھی کہ ان کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک کمزور یا ختم ہو جائے گی لیکن شہید نواب اکبر بگٹی و بلوچ اقابرین نے بلوچ سیاست میں جس سوچ، فکر، علم اور دانش کی بنیاد رکھ لی تھی آج وہ منظم شکل میں ایک مضبوط اور مربوط تحریک بن چکی ہے جس نے بلوچستان میں قابض ریاست کی جڑیں کھوکھلی کر دی ہیں۔ نواب اکبر بگٹی نے عمر کو جواز بناکر خاموش رہنے کے بجائے پیران سالی میں جس مزاحمتی سوچ کی آبیاری کی وہ بلوچ تاریخ میں ہمیشہ یاد رکھی جائے گی، ان کی قربانی ہمت اور جرات نے آج بلوچ نوجوانوں میں ریاستی قبضے کے خلاف مزاحمت کا حوصلہ بلند رکھا ہے اور آج بلوچستان کا بچہ بچہ پاکستانی قبضے کے خلاف بلوچ قومی تحریک سے جڑ چکی ہے۔ آپ نے اس عمر میں بھی دشمن کے سامنے سر جھکانے اور سرنڈر کرنے کے بجائے مزاحمت کو ترجیح دے کر تاریخ رقم کر دی اور بلوچ قوم بلخصوص نوجوانوں کو عملی پیغام پہنچایا کہ بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کے خلاف سر جھکانے
کے بجائے مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے بلوچستان کی آزادی کی جدوجہد کرنی چاہیے۔
طاقت کے نشے میں دتھ کچھ فوجی جرنیل یہ سمجھ بیٹھے تھے کہ اکبر خان بگٹی کو شہید کرکے وہ بلوچستان میں پھیلتے اس شعور کو روک پائیں گے جو بلوچستان پر پاکستان کے قبضے کے خلاف تیزی سے پھیل رہی تھی لیکن نواب اکبر بگٹی کی پیران سالی میں پہاڑوں کا رخ کرنا، پاکستانی قبضے کے خلاف لڑنے کا فیصلہ کرنا، پیران سالی میں مزاحمت کا راستہ اختیار کرنا، پاکستانی نام نہاد پارلیمنٹ جیسے ناسور کو خیرآباد کرتے ہوئے آزادی کی راہ کا تعین کرنا وہ تاریخی فیصلے ہیں جس نے بلوچ مزاحمت میں روح پھونک دی تھی جبکہ اکبر بگٹی کی شہادت تک قبضے کے خلاف مزاحمت جاری رکھنے کا فیصلہ اس کے شعوری اور فکری فیصلے کی واضح نشانی ہے۔ ریاستی نظام سے جڑے کچھ لوگ اکثر نواب اکبر بگٹی کے حوالے سے یہ غلط تاثر پیدا کرنےکی کوشش کرتے ہیں کہ شاید نواب اکبر بگٹی پاکستانی تشددانہ پالیسیوں کی وجہ سے آزادی کی جدوجہد کا حصہ بنا یہ مکمل غلط تاثر ہے بلکہ نواب صاحب کی جانب سے بلوچ قومی آزادی کیلئے مزاحمتی راستے کا انتخاب ان کے اس شعوری فیصلے کا حصہ تھا جس میں وہ بلوچستان کو ایک خودمختیار اور آزاد ریاست کی صورت میں دیکھنا چاہتے تھے۔ اس جدوجہد کیلئے انہوں نے 1971 میں بھی کوششیں کی تھی البتہ اُس وقت کی کچھ کمزوریوں کی وجہ سے یہ جدوجہد مکمل نہیں ہو پایا اور پھر ایک لمبی خاموشی کے بعد انہوں نے بالآخر پیران سالی میں اس راستے کا انتخاب کرتے ہوئے اپنی دیرانیہ سوچ اور فکر کی طرف گامزن ہوئے۔ انہوں نے مزاحمت کا راستہ اختیار کرتے ہوئے جو پیغام بلوچ قوم کو پہنچایا آج وہ سوچ اور فکر ہر بلوچ کے گھر میں پھیلا ہوا ہے۔ آج ہر
بلوچ پاکستانی قبضے کے خلاف کسی نہ کسی صورت میں بلوچ تحریک کا ساتھ دے رہی ہے۔
بلوچ قوم و بلخصوص سیاسی ورکر و نوجوانوں پر ضروری ہے کہ بلوچ سیاست میں اکبر خان کو اول و آخر تک پڑھ کر اپنے مستقبل کا فیصلہ کرلیں۔ بلوچ شہدا کا مقصد آزاد بلوچستان ہے۔ بلوچستان پر جب تک پاکستان کا قبضہ برقرار ہے یہاں کسی بھی طرح کی انسانی ترقی ممکن نہیں کیونکہ یہ ایک آفاقی حقیقت ہے کہ دنیا کی کوئی بھی قابض غلام قوم کو ترقی نہیں دیتی اور اس کا استحصال کرتا ہے۔