گیارہ اگست کا دن آزادی ، خودمختاری اور قابض کیخلاف جدوجہد کا سعی کرتا ہے۔
بی ایس او آزاد
بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد کے مرکزی ترجمان نے اپنے جاری کردہ بیان میں 11 اگست کو ایک تاریخی دن قرار دیتے ہوئے کہا کہ یہ دن ہمارے اسلاف کی جدوجہد، بلوچ وطن کی دفاع کی خاطر قربانیوں اور ایک آزاد خودمختار بلوچستان کی یاد دلاتی ہے جسے بعد میں پاکستان نے ایک بار پھر قبضہ کرتے ہوئے بلوچ قوم کو غلامی کے سلاخوں میں دھکیل دیا۔ یہ دن ہمیں ایک بار پھر اپنے وطن کی آزادی، خودمختاری اور قابض پاکستان کیخلاف جہد تسلسل اپنانے کی سعی کرتی ہے۔
انھوں نے کہا بلوچ قوم دیگر اقوام کی طرح تاریخی ارتقا کے تمام تر پہلوؤں کو سرانجام دینے کے بعد ایک آزاد، خود مختار اور متحدہ بلوچستان کے قیام میں کامیاب رہی ہے۔ ریاست قلات کی تشکیل ، مضبوطی اور وسعت سے لیکر انگریزوں کے قبضہ تک بلوچستان کو میلی آنکھ سے دیکھنے والے کسی بھی قبضہ گیر کو بلوچ سپوتوں نے اپنی سرزمین پر ٹکنے نہیں دیا اور کسی بھی بیرونی جارحیت کا ڈٹ کر مقابلہ کیا۔ 1839ء کو جہاں انگریز سرکار نے طاقت کے بل بوتے پر بلوچ سرزمین پر قبضہ کرنے کی کوشش کی اور ریاست قلات پر یلغار کیا تو خان آف قلات میر محراب خان نے ہزاروںساتھیوں سمیت مزاحمت کی راہ اختیار کی تو شہادت کی راہ اپنا کر مزاحمت کا استعارہ بنے۔
انھوں نے مزید کہا کہ بلوچ قوم نے جارحیت کے بل بوتے پر انگریز وں کے قبضے کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا اور قبضہ سے لیکر آزادی تک مختلف طرزِ عمل سے جدوجہد جار ی رکھا۔ بلوچ قوم نے قبضہ گیر کے خلاف جہاں قبائلی بنیادوں پر مسلح مزاحمت اختیار کی وہیں بیسویں صدی کے اوائل میں اس جنگ نے قومی وحدت کی شکل اختیار کرتے ہوئے سیاسی و مزاحمتوں دونوں محازوں پر برسر پیکار رہے۔ اسی جدوجہد کا نتیجہ تھا کہ انگریز قبضہ گیر بلوچ سرزمین چھوڑنے پر مجبور ہوئی اور 11 اگست 1947 کو ایک آزاد وطن کے طور پر دنیا کے نقشے میں نمودار ہوئی۔ لیکن غیر فطری اور نوزائیدہ ملک پاکستان کو بلوچوں کی آزادی ایک آنکھ نہ بھائی اور نو مہینہ آزاد حیثیت میں رہنے کے بعد پاکستان نے طاقت کے بل بوتے پر بلوچستان کو ایک بار پھر غلاموں کی زنجیروں میں جکڑ لیا اور آج تک بلوچ سرزمین مقبوضہ حیثیت رکھتی ہے۔
انھوں نے کہا کہ بلوچ قوم نے پاکستانی قبضہ کو کسی بھی صورت قبول نہیں کیا اور اس قبضہ گیریت کے خلاف روز اول سے جدوجہد کا راستہ اپنایا۔ بلوچ قومی جدوجہد تمام تر مراحل طے کرتے ہوئے آج ایک واضح سمت کی جانب گامزن ہے اور قومی تحریک آج سائنسی اور منظم بنیادوں پر منزل کی جانب گامزن ہے۔ بلوچ قومی تحریک، جدوجہد اور قربانیوں نے اداروں کو مزید مضبوط کرنے اور قبضہ گیر کے خلاف قومی وحدت کے تشکیل میں ارتقائی عمل سے گزر رہی ہے۔
اپنے بیان کے آخر میں انھوں نے کہا کہ آزاد اور خودمختار بلوچستان ہی ایک خوشحال اور ترقی یافتہ قوم کی ضامن ہے۔ بلوچ قومی شناخت اور قومی بقا کے تمام تر عنصر بلوچستان کی آزادی سے منسلک ہیں۔ بلوچ نوجوان قومی ذمہ داریوں کا ادراک کرتے ہوئے بلوچ وطن کی آزادی کےلیے قومی جدوجہد میں کلیدی کردار ادا کریں۔