غلام محمد، شیر محمد اور لالا منیر کو ان کی 15ویں برسی کے موقعے پر سرخ سلام پیش کرتے ہیں۔
بی ایس او آزاد
بلوچ نیشنل موومنٹ کے بانی چیئرمین اور بلوچ سیاسی رہبر نمیران غلام محمد، لالا منیر اور شیر محمد کو آج سے 15 سال پہلے قابض پاکستانی ریاست نے نمیران کرتے ہوئے بلوچستان میں ”مارو و پھینک دو” کی ظالمانہ پالیسی کا آغاز کیا جس کے تحت بعدازاں ہزاروں سیاسی کارکنوں کو نشانہ بنایا گیا، انہیں جبری گمشدگی کا نشانہ بناکر نمیران کیا گیا اور یہ سلسلہ آج بھی مختلف شکل میں جاری و ساری ہے۔ چیئرمین غلام محمد اور دیگر ساتھیوں کو نمیران کرتے ہوئے قابض ریاست اس نہ سمجھی میں مبتلا تھا کہ بلوچ سیاسی جہدکار اپنے کاز اور مقصد سے پیچھے ہٹ جائیں گے لیکن انقلابی رہبروں کی شہادت سے سیاسی جہدکاروں کو مزید حوصلہ اور ہمت ملتا ہے۔ گوکہ چیئرمین غلام محمد کی شہادت سے بلوچ قومی تحریک بلخصوص سیاسی محاذ پر شدید نقصان کا سامنا رہا اور جو خلا انہوں نے چھوڑ دیا اسے پر کرنے میں شاید صدیاں لگیں لیکن انقلابی سفر میں رہنماؤں کی قربانیوں جدوجہد اور تحریک سے جڑے سیاسی کارکنوں کیلئے حوصلے اور ہمت کا باعث بنتے ہیں۔
غلام محمد کو ریاستی فورسز نے کئی مرتبہ گرفتار اور جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا، تشدد کیا گیا، سیاسی منافق خوروں کے ذریعے انہیں بلوچ قومی جدوجہد سے دستبردار کرانے کیلئے تمام زرائع کا استعمال کیا گیا لیکن انہوں نے بلوچ قومی آزادی کے فکر و فلسفے کو لیکر بلوچستان کے کونے کونے میں عوام کو آگاہی دی، بلوچ قومی آزادی کیلئے سیاسی پارٹی کے خلا کو پر کرنے کیلئے بی این ایم کو تشکیل دی، بلوچ قومی تحریک میں مضبوط اداراتی سوچ کو فروغ دیا، بلوچ قیادت کو یکجا کرنے اور بلوچ قومی آزادی کیلئے اتحاد کیلئے بھی انہوں نے گرانقدر قدمات انجام دیے۔ انہوں نے بلوچستان کی تمام قیادت کو ایک پلیٹ فارم پر متحد کرنے کیلئے دن رات ایک کیے تاکہ بلوچ قومی دشمن کے خلاف بلوچ سیاسی طاقت ایک ہوکر مقابلہ کریں۔ وہ سیاسی شعور، انقلابی فکر، علمی اور دانش سے بھرپور سیاسی رہبر تھے جنہوں نے بلوچ سیاست کو ایک ویژن دینے میں اہم کردار ادا کیا اور بلوچستان میں ریاستی قبضے کو لیکر موجود ڈسکورسز کو بلوچ قوم کے سامنے عیاں کیا۔ غلام محمد بلوچ کو نمیران کرتے ہوئے قابض ریاست نے بنیادی طور پر بلوچ قومی تحریک کو انتہائی بڑے نقصان سے دوچار کیا جس کا ازالہ کرنے میں شاید بہت وقت لگیں لیکن انہوں نے بلوچ قومی تحریک اور جدوجہد کو جو ویژن دیا وہ بلوچ سیاسی کارکنوں کیلئے مشعل راہ کی حیثیت رکھتی ہے۔ انہوں نے بلوچ قومی آزادی کیلئے جو سیاسی پروگرام اور فلسفہ پیش کیا آج وہ بلوچ قوم اپنا چکی ہے اور بلوچستان میں ریاستی قبضے کو ماننے سے انکاری ہے جس کی وجہ سے قابض ریاست بزور طاقت اپنی غیر قانونی قبضے کو برقرار رکھنے کی کوشش کر رہی ہے۔ شہدائے مرگاپ میں نمیران ہونے والے سیاسی رہنماؤں کی قربانیوں ہمیشہ یاد رکھی جائیں گی ۔
بلوچ قوم غلام محمد و دیگر سیاسی رہنماؤں کے فکر و فلسفے کو لیکر بلوچ قومی جدوجہد کو مزید پارٹی اور تنظیمی بنیادوں پر منظم کرنے کی کوشش کریں۔ قابض ریاست تشدد اور طاقت کے زور پر اپنے قبضے کو برقرار رکھنا چاہتی ہے جس کی وجہ سے وہ غلام محمد جیسے سیاسی رہبروں کو نشانہ بنا چکی ہے لیکن بلوچ جہدکار دشمن کے اقدامات کا اچھی طرح سے علم رکھتے ہوئے نمیران غلام محمد کے ویژن کو اپنا کر پارٹی اور تنظیمی بنیاوں پر قومی جدوجہد کو متحرک کریں تاکہ بلوچستان پر قائم غیرقانونی قبضے کا خاتمہ کیا جا سکیں۔