سامراجی نظام تعلیم اور بلوچ طلبہ کی ذمہ داریاں
باشعور بلوچ طلبہ
بلوچ طلبہ رہنما اور سابق چیئرمین بی ایس او آزاد زاکر مجید نے ایک جلسے میں خطاب کے دوران کہا تھا کہ “دنیا کی کوئی بھی قبضہ گیر مظلوم قوم کے نوجوانوں کو تعلیم نہیں دیتا کیونکہ انہیں اس بات کا ادراک ہوتا ہے اگر غلام قوم کے نوجوانوں نے جہاز چلانے سیکھ لیا تو کل کو یہ جہاز ہمارے خلاف استعمال کر سکتے ہیں”۔
آج دنیا کی کوئی بھی قبضہ گیر اپنے ماتحت غلام قوم کے نوجوانوں کو حقیقی تعلیم نہیں دے گا کیونکہ حقیقی تعلیم حاصل کرنے کی صورت میں وہ اپنی غلامی اور ریاستی ظلم و جبر سے آشنا ہونگے۔ البتہ یہ دنیا کی ہر قبضہ گیر کی کوشش ہے کہ مظلوم اور محکوم قوم کے نوجوانوں کو سامراجی تعلیم دیں تاکہ وہ بطور قوم وہ اپنی قومی شناخت، تاریخ اور ثقافت سے دستبردار ہوجائے اور اپنی قومی زمہ داریوں سے غفلت برتیں۔
بلکل اسی طرح پاکستان بھی بلوچوں کو حقیقی تعلیم سے آشنا نہیں کرے گا، وہ اپنی استصالی نظام تعلیم میں بلوچ شناخت، کلچر، تاریخ، تہذیب و تمدن زبان کی اہمیت اور دیگر اہمیت کے حامل چیزوں کی تعلیم نہیں دے گا بلکہ انہیں جھوٹ پر مبنی نصاب پڑھائے جائے گے تاکہ وہ اپنی قومی شناخت سے دستبردار ہوجائے۔ جب بھی قبضہ گیر مظلوم کیلئے تعلیم کی بات کرتا ہے اس کا واضح مطلب یہی ہے کہ وہ جھوٹ پر مبنی اپنی تعلیم دینے کی بات کر رہا ہے تاکہ یہ تعلیم ان کے مفادات کو پایہ تکمیل تک پہنچائیں۔ دنیا میں جتنے بھی قبضہ گیر گزرے ہیں یا جتنی تحریکیں آج دنیا میں جاری ہیں ان میں ایک چیز مشترکہ ملے گی کہ ہر جگہ قبضہ گیر محکوم قوم کے نوجوانوں کو حقیقی نظام تعلیم سے دور رکھنے کے لیے اپنے تمام وسائل کو بروئے کار لاتے ہیں۔ جبکہ محکوم قوم کے تاریخ، زبان، تہذیب و تمدن اور تمام قومی آثار کو مٹاتے ہوئے اپنی جھوٹی تاریخ و اقدار سے محکوم قوم کے نوجوانوں کے ذہنوں کو کرپٹ کرنے کی کوشش کرتے ہیں۔ جب کسی قوم کے نوجوان اپنی محکومیت، مظلومیت، اپنی تاریخ و کلچر اور ادب کی تعلیم سے محروم رہیں تو اُن کے اندر قومی مزاحمت کا جذبہ پیدا نہیں ہوتا۔
باشعور بلوچ نوجوانوں
اگر ہم بلوچستان میں قبضہ گیر کی تعلیمی پالیسیوں کی بات کریں تو ہمیں دو طریقہ اور پالیسیاں ملیں گی۔ ایک طرف بلوچستان میں جتنی بھی یونیورسٹیاں ہیں وہاں بلوچ نوجوانوں کو پاکستان اپنی جھوٹی تاریخ پڑھا رہی ہے جبکہ دوسری جانب بلوچ قومی تاریخ کو اپنے نصاب میں مکمل طور پر مسخ کر چکی ہے۔ پاکستانی نصاب میں بلوچ تاریخ، ہیروز، شناخت، زبان اور کلچر و قومی اقدار میں سے کسی بھی شئے کو شامل نہیں کیا گیا جس کا مقصد بلوچ نوجوانوں کو اپنی تاریخ سے بیگانہ کرنا ہے۔اس تعلیم کا مقصد نوجوانوں کے ذہنوں کو کم علمی کے دائرے میں محدود کرنا ہے تاکہ وہ اپنی تاریخ اور شناخت پر بحث و مباحثے نہیں کرسکے۔ اکثر و بیشتر دنیا میں قبضہ گیروں نے محکوموں کو اپنے جھوٹی نصابوں کے ذریعے انہیں گمراہ کرنے کی پالیسی اختیار کی ہے جس کی مثال ہمیں کینیا میں ملیں گی جہاں قبضہ گیر نے اپنے تعلیمی اداروں کے ذریعے کینیا کے نوجوانوں کو اپنی شناخت اور تاریخ سے بیگانہ کرنے کرنے کی کوشش کی۔ بہت سے نفسیاتی ماہرین اسے ٹریک ہاؤس کا نام دیتے ہیں۔ ان کے مطابق یہ نفسیات نوجوانوں کو قومی جدوجہد سے دور کرکے رومانیت اور زاتی مفاد کی طرف لے جاتی ہے جبکہ اس کے شکار نوجوان اجتماعی سوچ کو پس پشت ڈال کر صرف اپنی انفرادی زندگی کے بارے میں سوچنا شروع کر دیتے ہیں۔ اسی طرح اگر ہم بلوچستان میں ریاستی سافٹ پاور یا کاؤنٹر انسرجنسی پالیسی کی بات کریں توبخوبی دیکھنے کو ملے گا کہ نوجوانوں کو سیاسی عمل سے دور رکھنے کے ساتھ ساتھ انہیں Course orientedبنانے کی کوشش ہو رہی ہے تاکہ وہ جنرل کتابوں سے دور رہیں۔ طالب علم نصابی سرگرمیوں میں اتنے مصروف کر دیے گئے ہیں کہ انہیں سماج کو پڑھنے اور سمجھنے کے لیے وقت میسیر نہیں ہوتا ہے۔ استحصالی تعلیمی نظام کے اندر انہیں کوئز، اسائنمنٹ، مڈ پیپرز اور فائنل پیپرز کے نام پر اتنا مصروف رکھا جاتا ہے کہ وہ تخلیقی تحقیقی تعلیم کی طرف کچھ توجہ ہی نہ دیں۔ یہ استحصالی تعلیم نوجوانوں کو قومی آزادی کے جدوجہد اور قومی شناخت سے دور کرنے کے لیے بھی اپنا بھر پور کوشش کررہا ہے۔ جبکہ دوسری جانب ان یونیورسٹیوں کے ٹیچرز کو اس طرح ٹرین کیا گیا ہے کہ وہ نوجوانوں کو جھوٹی تاریخ اور قصہ و کہانیاں بتائیں تاکہ طالب علم حقیقی بحث سے دور رہے کر اپنے آپ کو پاکستانی قومیت کے ساتھ منسلک کریں۔ یہ جھوٹی تاریخ ہی پاکستانی تعلیمی نظام اور اس کا نصابی تعلیم ہے اسی سلسلے میں حالیہ دنوں سنگل نیشنل کریکولم بھی لانچ کر دی گئی ہے یہ اسی سلسلے کی کڑی ہے کہ نوجوانوں کو حقیقی بحث سے دور رکھا جائے۔ دوسری جانب ہم دیکھتے ہیں کہ بلوچ سیاسی لٹریچر پر پابندی عائد کر د ی گئی ہے اور تعلیمی اداروں میں نوجوان خوفزدہ کیے جاتے ہیں۔ بلوچ تاریخ، کلچر، زبان اور شناخت پر جاری سرکلز کو نشانہ بنایا جاتا ہے۔ بی ایس او کی سیاسی لٹریچر پر غیر اعلانیہ پابندی اس بات کی عکاسی کرتا ہے کہ پاکستان حقیقی تعلیم سے کتنا خوفزدہ ہے جبکہ دوسری جانب بلوچستان کے تمام تعلیمی اداروں میں فوجی پروگرامز ہو رہے ہیں جہاں باقاعدہ ایف سی، آرمی شمولیت کر رہی ہے۔ ایک طرف ریاست کی پالیسی یہی ہے کہ نوجوان سی ایس ایس، پی سی ایس اور ایسی دیگر مقابلوں کے چکر میں رٹہ فکیشن کی ذہنیت اختیار کریں جبکہ وہ نوجوان جو ریاستی اس نصاب اور تعلیم سے دور الگ کتابوں سے نزدیکی کرتا ہے اور تاریخ و ادب اسٹڈی کرتا ہے تو پھر انہیں اغوا کر کے لاپتہ کیا جاتا ہے اور ایسی اذیتوں کا سامنا کرنا پڑتا ہے تاکہ جو ریاست سے اختلاف رکھیں تو وہ خوفزدہ ہوکر ریاست کے خلاف کسی بھی سیاسی عمل سے دور رہیں۔
بلوچ نوجوانوں
یہ ایک حقیقت ہے کہ اس مشکل وقت میں یہ تمام صورتحال نوجوانوں کیلئے چیلنجنگ ہیں۔ ایک طرف انہیں ریاستی کاؤنٹر پالیسیوں کا ادراک رکھتے ہوئے ان کا مقابلہ کرنا چاہیے اور دوسری جانب انہیں اپنی تاریخ، کلچر، زبان، شناخت اور بقاء کے متعلق آگاہی حاصل کرنا ہے۔ اسی طرح بلوچ نوجوانوں کو تعلیمی اداروں میں اس استحصالی نظام تعلیم کے بدلے حقیقی تعلیمی ماحول کو پروان چڑھانا بھی ہے ۔ کسی بھی غلام قوم کے نوجوانوں کی زندگی آسودگی کے ساتھ نہیں گزر سکتی انہیں ایسے ہی سخت حالات میں قومی جدوجہد میں اپنا کردار ادا کرنا ہوتا ہے۔ بلوچ نوجوان جہاں بھی تعلیم حاصل کررہے ہیں انہیں چاہیے کہ وہ اپنی قومی ذمہ داریوں کا احساس کریں، نوجوانوں کو اس بات کا احسا س ہونا چاہیے کہ وہ ایک غلام قوم سے تعلق رکھتے ہیں۔ ان کے زمین پر غیروں کا قبضہ ہے، ان کے ماؤں اور بہنوں کی روزنانہ تذلیل ہوتی ہے۔ بلوچ نوجوانوں کو دنیا کی دیگر محکوم اقوام کی تحریکوں کا بھی مطالبہ کرنا چاہیے کہ انہوں نے کیسے اپنے قوم کو غلامی کی لعنت سے آزاد کیا اور ہمیں بھی اسی فکر و فلسفے پر گامزن ہو کر قومی تحریک کو منزل مقصود کی طرف لے جانا ہے۔