چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ کی جبری گمشدگی کو دس سال مکمل ہو چکے ہیں۔عالمی ادارے اپنی زمہ داریاں نبھائیں۔
بی ایس او آزاد
تنظیم کے مرکزی چیئرمین زاہد بلوچ اور جونئیر جوائنٹ سیکرٹری اسد بلوچ کی جبری گمشدگی کو دس سال مکمل ہو چکے ہیں لیکن عالمی اداروں کی جانب سے مکمل طور پر خاموشی عائد کی گئی ہے۔ جن اداروں نے زاہد بلوچ کی بازیابی کی گرنٹی لی تھی انہوں نے بھی مکمل خاموشی اختیار کیا ہوا ہے جو ان کے وجود پر سوالیہ نشان ہے۔ زاہد اور اسد بلوچ کو کوئٹہ میں سابقہ چیئرپرسن بانک کریمہ اور دیگر دو ساتھیوں کے آنکھوں کے سامنے اٹھایا گیا تھا جن کی گواہی شہید لمہء وطن بانک کریمہ نے کئی موقعوں پر دی ہے۔ ریاست زاہد اور اسد بلوچ کو پس زندان رکھ کر بلوچ نوجوانوں کے اندر سے ان کی سوچ کا خاتمہ نہیں کر سکتی ہے، نوجوانوں اور جہدکاروں کیلئے وہ آج بھی بطور آئیڈل مانے جاتے ہیں۔ سیاسی رہنماؤں کو اس طرح جبری گمشدگی کا نشانہ بنانا اور ان کی موجودگی سے انکار ہونا ناکام ریاست کی واضح شکست کی نشانی ہے۔
زاہد بلوچ کو گزشتہ دس سال تک پس زندان میں رکھنا اس بات کی شاہد ہے کہ قابض پاکستان بلوچستان میں سیاسی جدوجہد سے مکمل طور پر خائف ہے۔ سیاسی جہدکاروں کو نشانہ بنانا اور انہیں غیر انسانی ٹارچر سیلوں میں بند کرنا ریاستی حواس پاختگی کی نشانی ہے۔ چیئرمین زاہد اور اسد بلوچ سمیت بلوچستان میں تنظیم کے سینکڑوں ساتھیوں کو جبری گمشدگی کا نشانہ بنایا گیا ہے، اس وقت تک تنظیم کے چیئرمین سمیت سابقہ انفارمیشن سیکرٹری شبیر بلوچ، وائس چیئرمین زاکر مجید بلوچ اور سینکڑوں دیگر ساتھی گمشدگی کا شکار ہیں جبکہ کئی تنظیمی ممبران کی لاشیں پھینکی جا چکی ہیں۔ بلوچ سیاسی جہدکاروں کیلئے ایسے حالات بنائے گئے ہیں جو کسی جیل سے کم نہیں اور پورے بلوچستان کو فوج سے بھر دیا گیا ہے حتی کے تعلیمی اداروں کے اندر بھی فوج بٹھائے گئے ہیں۔ زاہد اور اسد بلوچ سمیت دیگر سیاسی جہدکاروں کی باحفاظت بازیابی کو یقینی بنانا انسانی حقوق کے اداروں کی زمہ داری ہے۔ چیئرمین زاہد بلوچ کو بلوچ ہونے اور اپنے لوگوں کیلئے جدوجہد کرنے کی پاداش میں قابض فورسز نے کئی سالوں سے جبری طور پر لاپتہ رکھا ہوا ہے۔ زاہد کی بازیابی کیلئے تنظیم کی جانب سے کراچی پریس کلب کے سامنے 26 دنوں تک تادم مرگ بھوک ہڑتال بھی کی گئی جبکہ عالمی اداروں میں کیس فائل کرنے کے ساتھ ساتھ بلوچستان اور دنیا بھر میں زاہد، اسد اور دیگر جبری گمشدہ افراد کی بازیابی کیلئے احتجاجی راستے اپنائے گئے ہیں لیکن قابض ریاستی ادارے اب بھی یہ عمل جاری رکھے ہوئے ہیں۔
آخر میں تمام انسانی اداروں سے اپیل کرتے ہیں کہ وہ زاہد بلوچ اور اسد بلوچ کی بازیابی کیلئے تنظیم سے کیے گئے اپنے کمٹمنٹ کے مطابق ریاست کو دباؤ دیں اور ان کی بازیابی میں اپنا کردار ادا کریں۔ جبکہ سوشل میڈیا میں #SaveZahidAndAsadBaloch کے ہیش ٹیگ سے کمپین چلایا جائے گا، تمام لوگوں سے شرکت کرنے کی اپیل کرتے ہیں۔
ترجمان بلوچ اسٹوڈنٹس آرگنائزیشن آزاد